Time 25 اکتوبر ، 2021
بلاگ

کپتان کے 3 مغالطے !

کپتان کو تین مغالطے، 3غلط فہمیاں، 3خوش فہمیاں ،پہلا مغالطہ ،غلط فہمی، خوش فہمی، اس وقت اندرونی وبیرونی طاقتورقوتوں ،اداروں، عوام کے پاس ان کے علاوہ کوئی چوائس، آپشن نہیں ، اس کا وہ کئی بار آف دا ریکارڈ اظہارکر چکے۔

ان کے خیال میں بیمار نواز شریف نااہل ،سزا یافتہ ،مفرور، اقتدار کی دوڑ سے آؤٹ ، آصف زرداری پر اتنے کیسز ،وہ اتنے بیمار اب ایوانِ اقتدار میں ان کی واپسی ناممکن ،شہباز شریف کی صورت میں خطرہ موجود مگر ایک تو ان پر ٹی ٹی کیس سمیت 3کیس اتنے مضبوط ، سزا سے بچنا ناممکن ،دوسرا مریم نواز اپنے چچا کی ایسے جڑیں کاٹیں گی کہ وہ کبھی ’ہرے بھرے‘ نہیں ہو پائیں گے۔

باقی رہ گئے بلاول بھٹو ، مریم نواز، ’ ہنوز دلی دور است ‘، کپتان کے خیال میں ان کے مقابلے پر سب کرپٹ ،کمپرومائزڈ، ڈیلوں، ڈھیلوں والے، یہ سب عوام میں ایکسپوز ہوچکے۔

اب کپتان کی سوا تین سالہ بیڈ گورننس ،بیڈ پرفارمنس ،غلط فیصلوں ،غلط پالیسیوں کو ایک طرف رکھیں ، سواتین سالہ خون نچوڑ مہنگائی ،بے روز گاری ،غربت کو ایک طرف رکھیں ، انٹ شنٹ اندرونی وبیرونی فیصلوں کو ایک طرف رکھیں ، سوا تین سال میں آچکے کرپشن اسکینڈلز پارٹی ،کابینہ میں بیٹھے مافیاز کوایک طرف رکھیں ،ان کی بیک وقت چومکھی لڑائیوں کو ایک طرف رکھیں۔

جماعت میں گروہ بندیوں کو بھی ایک طرف رکھیں ، چند لمحوں کیلئے یہ سب بھول جائیں تو بھی کپتان کے علم میں شاید یہ نہیں کہ پاکستان کے بدبودار نظام میں ہر وقت کئی آپشن موجود،جہا ں کرپٹ ہونا ،کرپشن کرنا کوئی برائی نہ ہو، جہا ں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے ، جھوٹ بولنے ،منافقت کرنیوالے بھی باعزت ہوں ،جہا ں ووٹرکا ووٹ شعور وآگہی کی بجائے ،ذات،برادری ،تھانہ کچہری ودیگر مجبوریوں کی صورت میں دیا۔

لیا جارہا ہو ،جہاں وقت پڑنے پر معین قریشی ،شوکت عزیز،رضا باقر مطلب ہر عہدے ،ہر سائزکے لوگ امپورٹ کر لئے جائیں ، وہاں نااہل ،مجرم ،بیمار ،تندرست ہر کوئی ،ہروقت آپشن ،چوائس کی صورت میں موجود ، وہاں جو کل ر د ،مسترد ہوچکے ہوتے ہیں ، کل وہی حلف اٹھا رہے ہوتے ہیں ، پھر کپتان کو حضرت علی ؓ کا یہ قول یاد رکھنا چاہئے کہ ’’اگر یہ کرسی مستقل ہوتی تو تم تک کیسے پہنچتی ‘‘ لہذا انہیں یہ ذہن سے نکال دینا چاہئے کہ صرف وہی آپشن ۔

چوائس رہ گئے، ایوب سے نواز شریف تک سب یہی سوچتے سوچتے جاچکے ، ایسا سوچنے کی بجائے یہ دیکھیں ، سوچیں کہ قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے پڑے۔

عمران خان کا دوسرامغالطہ ،غلط فہمی ، خوش فہمی ،مجھے سب پتا، مجھے سب معلوم ،وہ کرکٹر رہے ،چلو کرکٹ کا انہیں علم ،شوکت خانم ہسپتال بنایا ، چلو سماجی ورک،صحت کے شعبے کا کچھ علم ہو گا، وہ نمل یونیورسٹی بنا چکے ،کچھ تعلیم کا بھی اتاپتا ہوگیا ،وہ مغرب میں رہے، چلو بہت سوں سے زیادہ مغرب کو بھی جانتے ہوں گے۔

اب یہ علیحدہ بات ان کے وزیراعظم ہوتے ہوئے کرکٹ، صحت ،تعلیم کاجو حال ، مغرب سے جیسے ہمارے تعلقات ،لیکن چلو مان لیا کرکٹ ،سماجی کام ،صحت ،تعلیم ،مغرب کا انہیں علم لیکن اس کے علاوہ بھی کوئی بات کی جائے ، کپتان فوراً بول پڑیں ،مجھ سے بھلا بہتر اور کون جانتا ہے۔

بات سیاست کی ہو ،مجھے سب معلوم ،مانا وہ دودہائیوں سے سیاست میں مگر مجھے سیاست کا سب معلوم یہ ناممکن ،بات داخلہ پالیسی کی ہو ،مجھے سب پتا، بات خارجہ پالیسی کی ہو، مجھے سب معلوم ، زندگی بھر اپنے گھر کابجٹ بنایا نہیں ، لیکن مجھے ملکی معیشت کا سب پتا، انہیں یہ وہم کہ ا ن سے بہتر مذہب کو کوئی نہیں جانتا ،وہ اقبال شناس بنے ہوئے ، و ہ خود کو ہر قسم کے لٹریچر پر اتھارٹی سمجھیں ،وہ تاریخ دان بنے بیٹھے ،ان کا وہم انہیں تصوف کے اسرارورموز پر دسترس ،لہٰذا کوئی بھی موضوع چھڑ جائے ،ان کا بھاشن تیار،اب مجھے سب پتا ،مجھے سب معلوم کا ملک کو کیا نقصان ہو چکا، ،خود دیکھ لیجئے۔

اندرون ملک ابتری، بیرون ملک تنہائی ،ڈوبتی معیشت ،تباہ حال عوام،پھر مجھے سب معلوم ،کپتان کا یہ مغالطہ ،غلط فہمی ،خوش فہمی ،آئے روزان کے اپنے لئے بھی شرمندگی کا باعث بنے ،کبھی وہ جرمنی ،جاپان کی سرحدیں ملادیں ،کبھی اسد روف کی نظم علامہ اقبال کی نظم بنادیں ،کبھی ٹیگور کا قول خلیل جبران کا بنادیں۔

کبھی انہیں حضرت عیسیٰ ؑ کا ذکر قرآن میں نہ ملے، کبھی صحابہ ؓ کا ذکر کرتے کرتے چوک جائیں ، وہ بیک وقت مغرب کی جمہوریت سے بھی متاثر اور یہ چینی ، سعودی ماڈل سے بھی متاثر،وہ ریاست مدینہ کے بھی داعی ،مگر ان کے فیصلے میرٹ سے بھی عاری ، یہ یوٹرنوں ،کہی باتوں سے مکرنے کو حکمت عملی بھی قرار دیں ، یہ تو چند مثالیں ،ایسی بیسیوںمثالیں اور بھی ۔

عمران خان کا تیسر امغالطہ ،غلط فہمی، خوش فہمی اپنے صادق امین ہونے کا زعم ، اپنے ایماندار ہونے کا یقین ، ان کی نظر میں ان کے علاوہ سب مشکوک، پوری اپوزیشن چور، ڈاکو ، لٹیری ،بیوروکریسی ہڈ حرام ،پچھلوں سے ملی ہوئی ۔

انہیں جوڈیشری سے بھی شکایتیں ، انہیں پچھلوں کے نوازے ہوئے مافیازدہ میڈیا سے بھی شکوے، انہیں تاجروں سے بھی گلے اور تو اور ان کی باتیں غور سے سنیں تو لگے انہیں تو قوم بھی ٹھیک نہ ملی ، اب یہ مان لیا عمران خان خود ایماندار ، انہیں سپریم کورٹ سے صادق امین کا سرٹیفکیٹ بھی مل چکا، مگر ایسی ایمانداری کا کیا فائدہ کہ اپنی کابینہ، پارٹی میں کرپٹ موجود ،ایسی ایمانداری کا کیا فائدہ لاڈلے ،چہیتے ، ’دیہاڑیاں ‘لگار ہے۔

اِردگرد لٹ مار ہورہی اور آپ جان بوجھ کر خاموش ، آنکھیں بندکر رکھیں ، ایسی ایمانداری کا کیا فائدہ کہ کل تک جنہیں آپ بے ایمان کہتے تھے آج وہ سب ساتھی، اتحادی ،ایسی ایمانداری کا کیا فائدہ کہ ہر معاملے میں مافیا جیت جائے۔

ہر معاملے میں آپ ہا ر جائیں اور ایسی ایمانداری کا کیا فائدہ کہ آپ کے وزیراعظم بننے کے بعد ملک میں کرپشن بڑھ جائے ،لہٰذا حضور جس ایمانداری کا ملک ،قوم کو کوئی فائدہ نہ ہو، اس ایمانداری کا اچار ڈالنا، بہرحال سوباتوں کی ایک بات اور یہ دکھ کی بات، کپتان دن بدن اپنے ان 3مغالطوں ،غلط فہمیوں ،خوش فہمیوں کی دلدل میں دھنستے جارہے ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔