Time 01 نومبر ، 2021
بلاگ

’’مذہب کا استعمال‘‘

’’ـ مذہب کا استعمال ـ‘‘، ’’مذہب کا استعمال‘‘ کی رٹ ہمارے کئی ٹی وی اینکرز اور ایک مخصوص طبقہ نے کافی عرصہ سے لگا رکھی ہے۔ یہ سب بلاوجہ نہیں کیا جا رہا بلکہ ایک دانستہ کوشش ہے کہ ایسا بیانیہ بنایا جائے کہ یہاں کوئی اسلام کا نام ہی نہ لے سکے۔ 

سیاسی معاملات ہوں یا معاشرتی، معیشت سے اُن کا تعلق ہو یا سماج کے رویوں سے، اس بیانیہ کو زور و شور سے ہوا دی جا رہی ہے تاکہ ایسا ماحول بنا دیا جائے کہ کوئی اسلامی احکامات، اسلامی اصولوں اور اسلام کے نفاذ کی بات ہی نہ کر سکے۔ 

میں اُن معاملات کی بات نہیں کر رہا جہاں مذہب کے نام پر کوئی زیادتی کرتا ہے، ظلم ڈھاتا ہے، غیر اسلامی اور غیر شرعی عمل کو justify کرتا ہے یاناحق خون بہاتا ہے۔ میرا اعتراض اس بات پر ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت اسلام کانام لے، اگر کوئی حکومت اسلامی احکامات پر عمل داری کی بات کرے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ تو ’’مذہب کا استعمال ــ‘‘ ہے۔

 وزیراعظم عمران خان نے اگر اپنے موجودہ دور حکومت میں کچھ ایسے کام کیے جو اسلامی تعلیمات اور احکامات کے مطابق تھے تو اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ عمران خان ’’مذہب کا استعمال‘‘ کر رہے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو اسلامی آئین دیا، یہ آئینی شق شامل کی کہ اس ملک کے ہر قانون کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالا جائے گا، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا، جمعہ کی چھٹی اور شراب پر پابندی جیسے اقدامات کیے تو اس پر بھی کہا جاتا ہے کہ بھٹو نے ’’مذہب کا استعمال ‘‘ کیا۔

 بھئی یہ تو اسلام اور آئین پاکستان کے تحت حکومتوں اور حکمرانوں کی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے۔ یہی بات مرحوم جنرل ضیاء الحق کے بارے میں کہی جاتی ہے بلکہ جتنے بھی ڈکٹیٹرز اس ملک میں رہے، سب سے زیادہ نفرت کا اظہار جنرل ضیاء الحق سے ہی کیا جاتا ہے اور اس کی وجہ بھی وہی ہے کہ مرحوم ضیاء الحق نے کئی اسلامی اقدامات اپنے دور حکومت میں کیے۔ 

عمران خان اسلام کی بات کرتے ہیں، اُنہوں نے تعلیمی نصاب کو اسلامی بنایا، وہ معاشرہ کی کردار سازی کے لیے اسلامی اصولوں کے مطابق تربیت کا ایک نظام متعارف کروا رہے ہیں۔ اس پر عمران خان کو کہا جا رہا ہے کہ یہ تو مرحوم ضیاء الحق کی اسلامائزیشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

 اسلام کے نفاذ کی بات کریں تو کہا جاتا ہے کہ آپ تحریک طالبان پاکستان کا اسلام لانا چاہتے ہیں؟ فحاشی و عریانیت کے خلاف اسلامی احکامات کی بات کریں تو کہتے ہیں کہ اسلام کو ہر جگہ کہا ں لے آتے ہیں۔ گویا ایک ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے کہ کوئی اسلام کی بات ہی نہ کرے ۔ 

’’مذہب کا استعمال‘‘ کا بیانیہ اس قدر زور پکڑ چکا کہ بہت سے سیاستدان بھی بغیر سوچے سمجھے یہی بات کرتے سنائی دیتے ہیں۔ اچھے خاصے سمجھدار اور اسلامی ذہن رکھنے والے افراد اور سیاستدان بھی ٹی وی چینلز پر اسلام کی بات کرتے ہوئے ہچکچاتے اور ڈرتے ہیں کہ کہیں اُن پر بھی ’’مذہب کے استعمال‘‘ کا ’’الزام‘‘ نہ لگا دیا جائے۔

 اکثر سیاستدانوں کے برعکس عمران خان میں یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ وہ کھل کر، بڑے فخر کے ساتھ اسلام کا نام لیتے ہیں، فحاشی و عریانیت کو ہمارے خاندانی نظام کی تباہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور میڈیا کو عریانیت پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

 خان صاحب سے سیاسی معاملات اور دوسرے ایشوز پر اختلاف ضرور کریں لیکن اُن کی حکومت کے ایسے اقدامات جو اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے کیے گئے اُن پر وزیر اعظم اور حکومت کا سب کو ساتھ دینا چاہیے۔ میڈیا اور ایک مخصوص طبقہ کے اس بیانیہ کا مقصد اسلام کو صرف اور صرف عبادات تک محدود کرنا ہے جبکہ ہمارا دین ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔

 اسلام عبادات، معاملات، معاشرت، معیشت ، سیاست، سماجی اور معاشرتی رویوں سب کے متعلق احکامات اور اصول متعین کرتا ہے جن کے نفاذ کے لیے کوشش کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے کسی پروپیگنڈہ سے مرعوب ہوئے بغیر حکومت، پارلیمنٹ اور مذہبی وسیاسی جماعتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ پاکستان میں اسلامی تعلیمات اور آئین کی روح کے مطابق اسلام کے نفاذ کو یقینی بنائیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔