بلاگ
Time 01 نومبر ، 2021

مہنگائی پوری دنیا میں ہے مگر …!

پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے پریشان حال پاکستانیوں نے حسرت کے ساتھ یہ خبر سنی ہے کہ کچھ یورپی ممالک نے کم آمدنی والے شہریوں کو 100 یورو ( 20 ہزار پاکستانی روپے ) ماہانہ مہنگائی الائونس دینے کا اعلان کیا ہے۔

 ان ممالک کے وزرائے ا عظم کے مطابق حکومت 2 ہزار یورو سے کم ماہانہ آمدنی والوں کو 100 یورو مہنگائی الاؤنس دے گی ۔ 3 کروڑ 80 لاکھ سے زائد افراد مہنگائی الاؤ نس کے اہل ہوں گے اور یہ رقم اہل افراد تک خود بخود پہنچ جائے گی۔ 

رپورٹس کے مطابق مہنگائی الاؤنس کی مد میں ان ممالک کی حکومتیں80 ارب یورو خرچ کریں گی ۔ حکومت یہ امداد ایندھن اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے سبب دے رہی ہے ۔ پاکستان کے حکمراں یہ تو کہتے ہیں کہ مہنگائی پوری دنیا میں ہو رہی ہے لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ دنیا کی اکثر حکومتیں مہنگائی کے اثرات کوزائل کرنے کےلئے لوگوں کو ریلیف فراہم کرتی ہیں ۔

 ان ملکوں کی کرنسی مستحکم رہتی ہے اور یوں اس کی قدر نہیں گرتی ہے ، جس تیزی سے پاکستانی کرنسی کی قدر گرتی ہے ۔ اس لئے لوگوں کو جو ریلیف یا امداد دی جاتی ہے ، اس کا انہیں فائدہ ہوتا ہے اور وہ بعض اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔

مہنگائی کے اثرات سے عام لوگوں خصوصاً کم آمدنی والے لوگوں کو بچانا ریاست اور حکومت کی اس طرح کی ذمہ داری ہے ، جس طرح جان و مال کے تحفظ ، صحت ، تعلیم ، روزگار اور بنیادی حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔

 ہمارے ہاں اس ذمہ داری کو ریاست اور حکومت قبول ہی نہیں کرتی ہے ۔ عوام کو براہ راست ریلیف یا امداد دینے کی بجائے سرکاری اور نجی اداروں اور کارٹیلز کو سبسڈی دے دی جاتی ہے۔ اس کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا جبکہ کھربوں روپے کرپشن اور لوٹ مار کی نذر ہو جاتے ہیں ۔ 

بہت تھوڑے عرصے میں پاکستانی روپے کی قدر ہمارے اپنے خطے کے اپنے جیسے ممالک کی کرنسیوں کے مقابلے میں تشویش ناک حد تک کمزور ہو گئی ہے۔ پاکستانی 300روپے کے بدلے اس وقت بھارتی 130 روپے ملتے ہیں ۔ پاکستانی 300 روپے کے بدلے بنگلہ دیشی 150 ٹکا ملتے ہیں ۔ یہاں تک کہ افغانستان کی کرنسی بھی ہم سے مضبوط ہو گئی ہے ۔ 

پاکستانی 300 روپے کے بدلے 155 افغانی ملتے ہیں ۔ ہم نے ابھی تک اس بات پر غور نہیں کیا کہ ہم کس تباہی کی طرف جا رہے ہیں ۔ امریکی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایران کی کرنسی ’’ تومان ‘‘ کی قدر مسلسل گرتی جا رہی ہے ۔ وینز ویلا کے بعد ایرانی کرنسی دوسری کم قدر کرنسی ہے ۔

 کرنسی کی قدر اس تیزی سے گر رہی ہے کہ اگر ایک چیز کی قیمت آج ایک لاکھ تومان ہے تو عین ممکن ہے کہ اگلے روز اس کی قیمت ڈیڑھ لاکھ اور اس کے اگلے روز دو لاکھ تومان ہو ۔ وہاں مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور لوگوں کی قوت خرید کم ہو رہی ہے ۔

 اس کے باوجود وہاں کی حکومت لوگوں کو ہر ممکن ریلیف فراہم کرتی ہے ۔ علاج معالجے کی لوگوں کو سستی سہولتیں میسر ہیں ۔ لوگوں کو صاف پانی ، بجلی اور تعلیم کی سہولتیں حاصل کرنے میں مشکل نہیں ہوتی ۔ حکومت تیل کے منافع میں سے ہر فرد کو 45 ہزار تومان ماہانہ کیش فراہم کرتی ہے ۔

 امن وامان کی صورت حال بہتر ہے ۔ تفریحی مراکز زیادہ ہیں ۔ ایران میں سالانہ دس لاکھ پاکستانی روپے آمدنی والے شخص کو غریب تصور کیا جاتا ہے لیکن اس غریب کے پاس بھی ایک گاڑی ہو تی ہے ۔ ایران میں مختلف اقوام آباد ہیں ۔ غریب اور امیر طبقات میں تفاوت بھی بہت زیادہ ہے لیکن ایران میں وہ افرا تفری اور تضادات نہیں ہیں ، جو پاکستان میں مختلف قوموں ، طبقات اور گروہوں کے درمیان نظر آتے ہیں ۔ 

غربت کی ایرانی تعریف کے باوجود وہاں غریب دو وقت کی روٹی ، تعلیم ، صحت ، پانی ، بجلی اور دیگر ضرورتوں کےلئے پریشان نہیں ہے ۔ ایران ان حالات میں بھی عالمی طاقتوں کے سامنے کھڑا ہے اور وہ ایک علاقائی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے ، جسے اب بین الاقوامی اور خطے کی سیاست میں پہلے سے زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی ہے ۔

وطن عزیز میں جس طرح عام لوگوں کو مہنگائی ، بے روزگاری ، بھوک اور افلاس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے اور ان کے احتجاج کو کالعدم مذہبی گروہوں کے احتجاج سے غیر موثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ وہ پاکستان کے داخلی استحکام کےلیے انتہائی خطرناک ہے ۔

 یہ راگ ضرور الاپا جائے کہ دنیا بھر میں مہنگائی ہو رہی ہے لیکن اس بات کا بھی احساس کیا جائے کہ دنیا میں مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لئے ریاستیں اور حکومتیں عوام کی مدد کرتی ہیں اور دنیا بھر میں بہت کم ممالک ایسے ہونگے ، جہاں کے عوام پاکستانیوں کی طرح مشکل میں ہوں ۔ 

ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ مہنگائی ، غربت اور بے روزگاری معاشرے میں تضادات کی آگ کو بھڑکانے کیلئے تیل کا کام کرتی ہیں۔ اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے قومی اتفاق رائے سے ’’ اکنامک نیشنل ایکشن پلان ‘‘ بنانے میں دیر کی گئی تو سب کو پچھتانا پڑے گا ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔