بلاگ
Time 13 دسمبر ، 2021

2018 ء کے انتخابات کے بارے میں سوالات کیوں ؟

گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے حلف نامے اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی آڈیو لیک کا معاملہ عدالت میں ہے،  اس پر کسی قسم کا تبصرہ مناسب نہیں ہو گا لیکن حلف نامے اور آڈیو لیک سے 2018 کے عام انتخابات کے بارے میں جو سوالات پیدا ہوئے ہیں، ان کے اور بھی بہت سے اسباب ہیں۔ 

حلف نامہ اور آڈیو لیک واحد سبب نہیں ہے۔ پاکستان میں 1970 کے عام انتخابات کے سوا جتنے بھی عام انتخابات ہوئے، وہ متنازع رہے یا متنازع بنا دیے گئے۔ ایسے انتخابات کا انعقاد ہمیشہ مسئلہ رہا ہے، جنہیں وسیع تر حلقے شفاف قرار دے سکیں۔ اس تناظر میں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ 2018 کے عام انتخابات کے بارے میں پیدا ہونے والے سوالات غیر معروضی نہیں ہیں۔

محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’ پاکستان کے عوام نے اپنی طویل جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں جمہوریت تو حاصل کر لی ہے لیکن شفاف انتخابات کے ذریعے قائم ہونے والی جمہوریت کے لیے ابھی اور جدوجہد کرنا ہوگی۔ ‘‘ 

یہ پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہے، جس کی نشاندہی محترمہ بے نظیر بھٹو نے کی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی اور رانا بھگوان داس نے چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان بننے سے انکار کر دیا تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ اگر انہوں نے یہ عہدہ قبول کیا تو ان کی نیک نامی متاثر ہوگی۔ وہ اگر کوشش بھی کریں تو ملک میں شفاف انتخابات نہیں کرا سکتے۔ انہیں اس امر کا بھی ادراک ہوگا کہ چیف الیکشن کمشنر کتنا ہی دیانت دار اور غیر جانبدار کیوں نہ ہو، وہ بے بس ہی رہے گا۔

جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ قبول کرکے بہت پچھتائے۔ وہ اس عہدے سے الگ ہونے کے بعد گوشہ نشینی میں چلے گئے اور اسی گوشہ نشینی میں 7جنوری 2020 کو انتقال کر گئے۔

 چیف الیکشن کمشنر بننے سے پہلے ان کی وسیع تر حلقوں میں بہت عزت تھی اور ایسی عزت بہت کم لوگوں کو نصیب ہو تی ہے۔ لوگ انہیں پیار سے فخرو بھائی کہتے تھے۔ ان کی سربراہی میں 2013 میں ہونے والے عام انتخابات کے نتائج آئے تو انتخابات کے ساتھ ساتھ فخرو بھائی کی شخصیت کے بارے میں بھی سوالات پیدا ہونے لگے۔

 ان کے قریبی لوگ بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام بہت کرب میں گزارے۔ وہ اپنی نیک نامی اور ساکھ کے بارے میں پیدا ہونیوالے سوالات پر بہت پریشان تھے۔ پاکستان میں غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کے ساتھ ساتھ غیر جانبدارانہ اور شفاف احتساب بھی ایک مسئلہ ہے اور رہیگا۔ الیکٹرونک ووٹنگ مشین ( ای وی ایم ) کا تنازعہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس ملک کے وسیع تر حلقوں کو صرف شک ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ ای وی ایم کو انتخابات میں مرضی کے نتائج کیلئے استعمال کیا جائیگا۔

بہت سے لوگوں کو 1970 ءکے عام انتخابات کے بعد میڈیا میں چلنے والے مباحث آج بھی یاد ہوں گے۔ سقوطِ ڈھاکا اور باقی ماندہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت بننے کے بعد اخبارات میں تواتر کے ساتھ آرٹیکلز لکھے گئے، جن میں یہ دلیل دی گئی کہ 1970 ءکے انتخابات اگر شفاف نہ ہوتے تو پاکستان دولخت نہ ہوتا۔

 اب اگر باقی پاکستان کو قائم رکھنا ہے تو انتخابی عمل اور انتخابی نتائج کو ’’ قومی سلامتی ‘‘ کے مطابق بنانا ہو گا۔ ہم یہ آرٹیکلز پڑھتے تھے۔ جوابی آرٹیکلز لکھ کر اخبارات کو بھیجتے تھے تو وہ شائع نہیں ہوتے تھے اور کچھ دنوں کے بعد ہمارے شائع نہ ہونے والے آرٹیکلز کا جواب چھپا ہوتا تھا، جس میں شفاف انتخابات کو قومی سلامتی کیلئے ضروری قرار دینے والوں کو بدبخت اور ملک دشمن جیسے القابات سے نوازا جاتا تھا۔

 پھر تاریخ نے دیکھا کہ پاکستان میں انتخابی نتائج حقیقی عوامی مینڈیٹ کے مطابق نہیں تھے۔ 1977 ءکے عام انتخابات کے نتائج کیخلاف پاکستان قومی اتحاد ( پی این اے ) کی تحریک دراصل انتخابات کے بعد نتائج کو سبوتاژ کرنے کی کوشش تھی۔ پھر انتخابات سے پہلے نتائج بنانے کا میکا نزم تیار کیا گیا، جو 1988 ءکے عام انتخابات میں آزمایا گیا۔

 پیپلز پارٹی کو پنجاب میں قومی اسمبلی کی اکثر نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی لیکن وہ صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل نہ کر سکی۔ یہ بات عقل بھی تسلیم نہیں کرتی کہ قومی اسمبلی کی نشستیں جیتنے والی پارٹی صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کیسے ہار سکتی ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہا۔ 

دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ 2002کے انتخابات میں خیبر پختونخوا میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کامیابی حاصل کرتی ہے۔ 2008ءکے عام انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی ) کامیاب ہو کر حکومت بناتی ہے۔ 2013ءکے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف وہاں بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھرتی ہے۔ 

ہر الیکشن میں خیبرپختونخوا کے عوام کی نمائندگی تبدیل ہو جاتی ہے۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں قوم پرستوں کو حکومت دی گئی تو پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی اور کبھی میڈیا کے ذریعہ یہ پروپیگنڈا کرایا جاتا ہے کہ ملکی سلامتی کیلئے بلوچستان میں قوم پرستوں کی حکومت بننا لازم ہے۔ یہ بھی قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ پیپلز پارٹی کو پنجاب میں حکومت نہ دی جائے اور اسے سندھ تک محدود رکھا جائے۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کا اثرو رسوخ ختم کرنے کیلئے اب مذہبی قوتیں سر اٹھا رہی ہیں۔

وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں حقیقی طور پر آزادانہ، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے لیے سیاسی قوتوں کو کسی مصلحت کے بغیر اقدامات کرنا ہوں گے اور اتفاق رائے سے انتخابی اصلاحات کرنا ہوں گی۔ شفاف انتخابات کے ذریعے قائم ہونے والی جمہوریت ہی پاکستان کے استحکام، سلامتی اور سیاسی و معاشی خود مختاری کے لیے ضروری ہے۔

 ورنہ حلف ناموں اور آڈیو یا ویڈیو لیکس پر جو سوالات پیدا ہوتے ہیں، وہ پیدا ہوتے رہیں گے اور ان سے پاکستان کے سیاسی و داخلی استحکام پر اثرات مرتب ہوتے رہیں گے۔ رانا شمیم کا حلف نامہ اور ثاقب نثار کی آڈیو لیک درست ثابت ہوں یا نہ ہوں، 2018 کے عام انتخابات کے بارے میں پیدا ہونے والے سوالات ختم نہیں ہوں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔