15 دسمبر ، 2021
کراچی آرٹس کونسل میں اتوار کے روز اُس 14ویں عالمی کانفرنس کااختتام ہوگیا جس میں شرکت کیلئے علم وادب اور فن وثقافت کا ایک جہاں منتظررہتاہے، یہ کانفرنس جاتے ہوئے علم وفضل، آگہی وبیداری کےایسے گوہرہائے نایاب دے جاتی ہےجو اگرسنبھالے جائیں تو عقلِ انسان فقرسے نہ صرف یہ کہ تادم حیات بے نیاز رہتی ہے بلکہ یہ توشہ آخرت بھی ہوتی ہے۔
آخری روز جہاںہزاروں شرکاء شکرکے ساتھ مختلف قرار دادیں منظورکررہے تھے وہاں’’ یہ اسمبلی ‘‘ تزک و احتشام کانظارہ، علم وآگہی کا سمندر اور رنگ ونور کی کہکشاں بنی ہوئی تھی۔آخری روز جہاں ملک بھر سے آئے ہوئے اپنے شعبوں کے سینکڑوں نامور نام ایک دوسرے سے رخصت لیتے ہوئے جدائی کے جذباتی کیف میں مبتلا تھے وہاں اُن کے چہروں پر نمایاں طمانیت وکشادگی اس بات کی علامت تھی کہ وہ اپنے حصے کا کام کرکےلوٹ رہے ہیں۔
ایک عالم کو اپنی کارکردگی سے حیران کرنے والی اس آرٹس کونسل کراچی کی تمام شہرت وندرت ایک ایسے بےباک وبے ریاقائد کی مرہونِ منت ہے جونہ صرف اس ’شوقِ آوارگی ‘کی خاطراپنے تن ومن سے بے گانہ ہوچکےہیںبلکہ اپنےساتھیوں کو بھی دم لینے نہیں دیتے۔
یہ ہیں محمد احمد شاہ۔بعض شخصیات اپنی ذات میں ادارہ ہوتی ہیں، اس شہر کویہ شرف ووصف حاصل ہےکہ یہاں پروفیسر ادیب رضوی جیسے درویش صفت غریبوں بیماروں کے دکھوں کے مداوے کیلئے شب وروز ایک کئے ہوئے ہیں وہاں محمداحمدشاہ انتہاپسندی وجنونیت کے ہاتھوں بیمار معاشرے کے علاج کیلئے سرگرداں ہیں۔
کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں اپنے استقبالیہ خطبے میں احمد شاہ نے کہا کہ جب کسی قوم کی ثقافت ختم ہوجائے تو وہ معاشرہ مردہ ہوجاتا ہے، ہم اپنی تہذیب کے بے غرض سفیر ہیں، ادب وثقافت اور تہذیب سے محبت کرنیوالوں کیلئے یہ کانفرنس عید ہے، ہمیں تہذیب و ثقافت کے دشمنوں سے ادب کے ذریعے لڑنا ہے۔چارروزہ کانفرنس میں دنیا بھر اور اندرون ملک سے 250 سے زائد دانشوروں، اسکالرز، ادیبوں اور شاعروں نے شرکت کی جبکہ بھارت کے تمام بڑے شاعر اور ادیب ڈیجیٹل کانفرنس میں موجود رہے۔
عالمی اردو کانفرنس کی انفرادیت اور اس کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہےکہ اس میںتین سال سے سندھی، بلوچی، سرائیکی، پشتو اور پنجابی زبانوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔افتتاحی سیشن سے وزیرعلیٰ سندھ نے خطاب کرتے ہوئے جہاںیہ کہاکہ عالمی اردو کانفرنس نے سندھی، پنجابی، بلوچی، پشتو، سرائیکی اور پاکستان کی تمام زبانوں کو محبت کے دائرے میں مقید کر رکھا ہےوہاں سندھ کے وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ نے کہا کہ اردو برصغیر کی زبان ہے ہمیں ریاست نے نہیں بلکہ شاہ عبدالطیف نے بچایا ہے، اردو زبان کو بچانے کے لیے سب زبانوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔
کانفرنس میں 50نشستیں ہوئیں، میں یہاں اس کانفرنس میں شامل پشتو سیشن سے متعلق کچھ کہنا چاہیں گے،جس کا موضوع پشتوزبان وادب تھا، نشست کی صدارت ڈاکٹر خادم حسین نے کی وہ کانفرنس میں شرکت کیلئے خصوصی طورپر پشاور سےآئے تھے۔راقم نے نظامت کے فرائض انجام دیے،ڈاکٹرخادم حسین کا کہنا تھا کہ جب تک ریاست سب کو برابری کی بنیاد پر حق نہ دے، وطن ترقی نہیں کرسکتا۔
اگر ملک میں اقلیتی قوموں کو اہمیت نہ دی جائے تو اس کا نقصان اس قوم سے زیادہ اس ملک کو پہنچتا ہے۔ اُنہوں نے امیرکروڑ، روشنائی تحریک، خوشحال خان خٹک کے ادوار کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ باقی زبانوں کی طرح پشتو کی تاریخ بھی ادبی شاعری سے شروع ہوئی ہے۔ اُن کاکہناتھاکہ باچا خان اور عبدالصمدخان اچکزئی کے مجلوں نے پشتون خواتین کولکھنے کا موقع فراہم کیا، جس کی زندہ مثال شاعرہ الف جان خٹک ہیں۔
انہوں نے حاضرین کو نصیر احمد احمدی کا ناول 'بغدادی پیر پڑھنے کی تلقین کی اور کہا کہ اس میں ہر ایک پہلو پر نظر ڈالی گئی ہے۔ سرور شمال نے کہا پختون خطے میں چالیس برسوں سے جو جنگ جاری ہے اس کا اثر ہماری شاعری اور نثر پر بھی پڑا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے شاعروں نے لب ورخسارکی بجائے جنگ اور بارود کو اپنا موضوع بنایا۔ ساگر تنقیدی نے کہا کہ کراچی میں پشتو ادب کی ابتدا اس وقت ہوئی جب یہ شہر مکمل طور پر وجود میں نہیں آیا تھا اس زمانے میں انگریزوں کی حکمرانی تھی اور ساغر احمد ساغر انقلابی شاعر کے طور پر نمایاں ہوئے تھے۔
سیشن میں شاہ امروزخان نے بھی اظہار خیال کیا۔یہاں یہ کہناضروری ہے کہ کانفرنس کے مختلف سیشنز میں اکثر مقررین نے یہ مطالبہ کیاکہ جنہیں صوبائی زبانیں کہا جاتاہے وہ دراصل قومی زبانیں ہیں اور انہیں سرکاری طورپر قومی زبانوں کا درجہ دیاجائے،تعلیمی سیشن میں ماہرین کا کہناتھاکہ بچوں کو مادری زبان میں تعلیم دے کرہی اُن کی فطری صلاحیتوں کو نکھاراجاسکتاہے۔الغرض یہ کانفرنس جو قبل ازیںفروغ اردوکے حوالے سے حسین تھی،اب چاروں صوبوں کی زبانوں کی نمائندگی سے اس میں چارچاند لگ گئے ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔