پالیسی و قانون سازی :کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے

تحر یک انصاف جب ملک پر عشروں سے مسلط نظام بد ( موجود اسٹیٹس کو) کو پاش پاش کرکے سماجی و اقتصادی انصاف پر مبنی شدت سے مطلوب تبدیلی کے ایجنڈے کا خواب دکھا کر الیکشن 18میں برسر اقتدار آئی تو سجائے گئے خوابوں کی تعبیر کے لیے چند تقاضے انتہائی بنیادی شدت سے مطلوب تھے۔

 پی ٹی آئی اس ضمن میں اقتدار سنبھالنے سے تادم تقریباً ناکام ہی چلی آ رہی ہے جس کا شاخسانہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابی نتائج ہیں سب سے بنیادی تقاضہ تو یہ تھا کہ قومی زندگی کے ہر شعبے کا پالیسی ڈوکومینٹ، ہوم ورک کے طورپر اقتدار سنبھالنے سے پہلے اس کے پاس تیار ہونا چاہئے تھا جو نہیں تھا ۔ 

کوئی قومی اقتصادی حکمتِ عملی تک نہ تھی پھر آتے ہی قانون سازی کا مکمل پیکیج ان ہینڈ تیار ہوتا کہ جو پالیسیز تیار ہوتیں ان کے لئے مطلوب متعلقہ قانون سازی کے مجوزہ قانونی بل ان ہینڈ ہوتے۔ یہ دونوں کام یعنی ایڈمنسٹریٹو سائنس کے علم کی روشنی میں پالیسیز تیار کرنے والے اور جن شعبوں کی پالیسیز بنائی جاتیں ان کے ماہرین کی بہت بڑی کھیپ تحریک انصاف کو دل وجان سے اپنی مہارت و علم کے حوالے سے بہت کچھ دینے کے لئے تیار نہیں بے چین تھی ۔ 

قانونی مسودات /بل تیار کرنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی خاکسار بہت سوں کو جانتا ہے جنہوں نے اپنے تئیں یہ کارِخیر شروع کر دیا تھا کچھ نے تو ابتدائی نوعیت کے ڈوکومینٹس خانِ اعظم کے حوالے بھی کر دیئے تھے ۔وائے بدنصیبی یہ تو الیکشن 18کی انتخابی مہم شروع ہونے سے سال ڈیڑھ سال قبل ہی ہو گیا تھا کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کا چڑھتا گراف دیکھتے اور ن لیگ اور پی پی کی منفی حکمرانی کے پچھلے ہی لچھن پر قائم رہنے بلکہ اور زیادہ ہونے پر ضلعی سے صوبائی اور قومی سطح تک اسٹیٹس کو کے تیزی سے رنگ بدلنے والے کارکن اور رہنمائوں نے بڑی تیزی سے تحریکِ انصاف کا رخ کر لیا ۔

ان میں دولت اور جائیدادوں والے بھی تھے الیکشن جیتنے اور بڑی بڑی برادریوں والے بھی اور بڑے بڑے ’’سیاسی فنکار‘‘ تبدیلی کے علمبردار خان بڑھتی مقبولیت اور عوام میں تبدیلی کی شدید خواہش کے باوجود پارٹی کی تنظیم، اندرونی استحکام، میرٹ اور مردم شناسی کا کوئی پیمانہ قائم کرنے میں ہی ناکام نہیں ہوئے ۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس مطلوب سے قطعی لاپروا ان کا یقین اپنی ہی مقبولیت اور کرکٹ کی کامیابیوں اور شوکت خانم جیسے عظیم رفاہی پراجیکٹ کی کامیابی سے ملے بلند درجے کے اعتبار تک محدود تھا اس کے مقابل عوامی سیاست کی کامیابی کے لازمے سوشل سائیکی کو سمجھنے اور سٹریٹ وژڈم سے بالکل ہی شناسا نہ تھے بس ان سے ہمدردی اور ان کی حالت بدلنے کے عزم کو ہی تبدیلی برپا کو کافی جانا۔

اس پس منظر میں جب مقبولیت بڑھنے پر اسٹیٹس کو میں رنگا عوامی سیاست کا ریلا پارٹی کی طرف آیا تو بغیر کسی فلٹر کے پارٹی میں داخل ہوا، یہ نظام بد کی سیاست کا مخصوص فیچر پہلے ہی سے تھا، بچاری 20سال سے پلتی بڑھتی لیکن اب چاق چوبند اور گمائے اور تازہ خون کی تحریک انصاف کا جسدیہ دبائو برداشت ہی نہ کر پایا ۔جو قافلہ تبدیلی کے لئے خان کا معاون بننے کے لئے تیار ہوا تھا وہ اپنے مخصوص انفرادی مزاج اور کیلیبر کے مطابق پیچھے ہوتا گیا۔ 

گویا تازہ خون سے بھری جماعت کی شریانوں میں اسٹیٹس کو کے اتنے انجکشن لگے کہ تحریک انصاف میں تحریک اور انصاف دونوں ہی تیزی سے کم ہونے لگے کہ مرض بڑھتا گیا جو عطائی کی دوا لی واضح رہے تحریک انصاف میں عطائی مشیروں کی بھرمار ہوگئی تھی اور خالصتاً جب مسلسل ٹیسٹ ہوتے گئے کہ وہ عطائی اور حقیقی معالجین کی پہچان کون ہے؟حالانکہ شور بھی مچا کہ عطائیوں سے بچو لیکن وہ ان سے بچتے تو کیا آج اقتدار میں بھی ان سے مغلوب ہیں کبھی کابینہ میں مدھانی چلاتے ہیں کبھی تنظیم میں ، مکھن ہو تو نکلے۔ جتنا ہے وہ نکل آتا ہے ۔

اب جو الیکشن قریب آیا ڈیزاسٹر پر ڈیزاسٹر ہو چکے۔ عوامی مقبولیت کا گراف تیزی سے گرا ،تحریک انصاف کے بدن کا گندا خون پھوڑے پھنسیاں بن کر بدن کو مسخ کرنے لگا تو کچھ ہوش آئی یکدم’’تبدیلی سرکار ‘‘پارلیمینٹرین ایکٹوازم کی طرف آ گئی جسے قانون سازی کا ہوش نہیں تھا اس نے ایک ہی ہلے میں 31قانونی مسودے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے منظور کرا لئے،طریقہ ہو گا آئینی ، لیکن ہے بہت بھونڈا اگر ایسے قانون سازی ہوسکتی تھی تو ایسے مشترکہ چار پانچ اجلاسوں میں بہت نتیجہ خیز اور عوام دوست قانون سازی ہو سکتی تھی،اب تک بہت کچھ بہتر ہو جاتا۔اب تو اتنی گنجلک ہوئی ہے کہ پتہ ہی نہیں پڑا کہ کیا عوام کے لئے؟ 

عوامی زاویہ نگاہ یہ ہی بنا کر جو جارحانہ قانون سازی پارلیمان میں ہوئی وہ حسبِ روایت حکومت و سیاست کے لئے ہی ہو گی۔اس آئینی راستے کا تو ایٹ لارج پتہ ہی نہ تھا کہ اگر اپوزیشن مکمل عدم تعاون کا مظاہرہ کرے تو ’’مشترکہ اجلاس ‘‘ کی تنگ گلی سے نکلا جا سکتا ہے اور حکومت تو جس طرح نکلی ہے ،ایسا لگا اپوزیشن کا شور شرابہ اوراحتجاج اپنی جگہ قانون سازی کی راہ ہموار ہے ۔پی ٹی آئی میں ہے کوئی جو جواب دے کہ اگر ایسے ہی قانون سازی ہونی تھی تو پہلے دوسرے اور تیسرے سال کیوں خالی گئے اور پارلیمان کیوں اجڑی اجڑی سی لگی ۔

رہا پالیسی سازی کا معاملہ بس ایک تعلیمی پالیسی کا شور دو اڑھائی سال بعد مچا لیکن مکمل ایڈہاک ازم کے ساتھ پالیسی کا آرکیٹیکٹ کون ہے ؟ بنیادی خدوخال میں یکساں نصاب تعلیم سے آگے کچھ پلے نہ پڑا کہ کیا پالیسی آئی ہے ۔نئی پرائمری سکولنگ یقیناً لازمی ہونے کا کوئی اہتمام نظر نہ آیا ،ہائر ایجوکیشن تک کچھ بھی تو نہیں ہوا۔یکساں نصاب تعلیم کے حوالے سے اعتراضات کی بھرمار ہو چکی ہے ،جو یکساں نصاب بنا اسے قومی ضروریات و توقعات سے بھی متصادم قرار دینے سے متعلق بہت کچھ سوشل میڈیا پر آیا ۔

اب قومی سلامتی پالیسی بننے کا اعلان ہوا ہے کہ یہ ہمہ گیر اور اختراعی ہے ۔پٹاری تو ڈاکٹر معید یوسف نے دکھا دی کھولی نہیں اور موضوع میں دلچسپی رکھنے والوں میں گہرا تجسس پیدا کر دیا ہے کہ کیسے ہمہ گیر اور کتنی ہے ؟ان کا یہ کہنا بہت بجا ہے کہ قومی سلامتی کو تعلیم اور اقتصادی ترقی سے جوڑ دیا ہے لیکن سوال قطار باندھے کھڑے ہیں کہ پٹاری کھلے تو ہماری بھی کوئی وقعت ہو، سوال وجواب کے بغیر تو پالیسی پالیسی نہیں ہو گی پھر بھی کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے ۔

(جاری ہے )


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔