بلاگ
Time 10 جنوری ، 2022

حکومت کے ساتھ اپوزیشن بھی ناکام ؟

پاکستان تحریکِ انصاف کی موجودہ حکومت کے بارے میں اگرچہ وسیع تر حلقوں کا یہ اتفاق ہے کہ یہ حکومت نہ صرف عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی بلکہ بری طرزِ حکمرانی اور بد عنوانی میں پچھلی ساری حکومتوں کو پیچھے چھوڑ چکی ہے لیکن موجودہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی کارکردگی کے بارے میں بھی وسیع تر حلقوں کی یہ رائے ہے کہ یہ نہ صرف عوام کی توقعات کے برعکس ہے بلکہ ماضی کی تمام اپوزیشنز کے مقابلے میں بہت خراب ہے ۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں جاوید لطیف نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا ہے کہ اس وقت پاکستان کے عوام اپوزیشن سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ انہیں موجودہ حکومت سے نجات دلائے گی ۔ ان کی یہ بات حسبِ حال ہے لیکن وہ اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکے کہ اپوزیشن تقسیم کیوں ہے اور پیپلز پارٹی اور پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) احتجاج اور لانگ مارچ کے الگ الگ پروگرام کیوں ترتیب دے رہی ہیں ؟ اس سوال کا اپوزیشن کے کسی بھی رہنما کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں ۔ آج کی اپوزیشن کے مقابلے میں ماضی کی پاکستان تحریک انصاف کا بطور اپوزیشن کردار بہت بہتر نظر آتا ہے ۔ تحریک انصاف نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو نہ صرف مشکل میں ڈال دیا تھا بلکہ حکومت نے مجبور ہو کر پاناما اسکینڈل پارلیمنٹ سے عدالت میں لیجانے کا معاہدہ کیا تھا ۔ اس معاہدے کے بعد میاں محمد نواز شریف ایوان وزیرا عظم سے جیل چلے گئے اور سیاست کے لئے تاحیات نااہل ہو گئے ۔ وہ ابھی تک سیاست میں اپنی واپسی کیلئے ہاتھ پاوں مار رہے ہیں ۔ موجودہ اپوزیشن کے کردار کے حوالے سے میری پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کے کئی سینئر رہنماوں سے گفتگو ہوئی ہے ۔ اس گفتگو سے میں دو بنیادی نتائج اخذ کر سکا ہوں ۔ تقریباً تمام سینئر لوگ پہلے تو اس بات پر متفق ہیں کہ ماضی میں حکومت مخالف جتنی بھی کامیاب یا بھرپور تحریکیں چلی ہیں ، انہیں اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی حاصل رہی ہے اور حکومت مخالف کوئی بھی تحریک اگر اپنے حقیقی جوہر میں سسٹم یا اسٹیبلشمنٹ مخالف بن جائے تو اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں اس تحریک سے یا تو الگ ہو جاتی ہیں یا پھر اس کا رُخ موڑ دیتی ہیں ۔ ایسا نہ کرنے والی سیاسی جماعتیں اگلی حکومت کیلئے ’’ ڈس کوالیفائی ‘‘ ہو جاتی ہیں ۔ یہ سینئر لوگ بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک سے لے کر میاں نواز شریف کے خلاف تحریک انصاف کے دھرنوں تک کی مثالیں دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف عدلیہ کی آزادی کی تحریک کو مقتدر حلقوں کی پشت پناہی حاصل تھی کیونکہ عالمی اور ملکی مقتدر حلقے نئے علاقائی انتظام میں پرویز مشرف کا کوئی کردار نہیں دیکھ رہے تھے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان کو بطور اپوزیشن لیڈر اور بطور وزیر اعظم مقتدر حلقوں کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے ۔ اب جبکہ ان کی حکومت کی خراب کارکردگی کی وجہ سے عوام میں زبردست بے چینی پائی جا رہی ہے تو ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ تبدیل ہو سکتا ہے ۔ اسی حوالے سے اپوزیشن کا موجودہ سیاسی کردار بھی بدل سکتا ہے ۔ ویسے عوام کے سیاسی رحجانات کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں اپنی بقاء کیلئے اپنے طور پر کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہیں تاکہ لوگوں سے جڑے رہنے کے ساتھ ساتھ ان کی ’’ بارگیننگ ‘‘ پوزیشن بھی برقرار رہے ۔

اس گفتگو سے دوسرا اہم نتیجہ میں نے یہ اخذ کیا کہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں میں اگلی حکومت میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے یا مرکزی حکومت حاصل کرنے کا مقابلہ ہوتا ہے ۔ اس لئے وہ سیاسی تحریک کے کسی ایک ایجنڈے پر متفق نہیں ہو پاتیں یا انہیں متفق نہیں ہونے دیا جاتا ہے ۔پاکستان میں اپوزیشن کی سیاست کا مقصد آئندہ حکومت کے حصول کی اہلیت برقرار رکھنا یا اس میں اضافہ کرنا ہوتا ہے ۔ کسی حکومت کیخلاف بھرپور تحریک بھی اس وقت چلتی ہے جب مقتدر حلقے اس کے مخالف ہوں یا اس کے سرپر سے ہاتھ اٹھالیں ۔ اگر حقیقی عوامی تحریکیں چلیں ، جیسا کہ `1950اور 1960ء کی دہائی میں چلی تھیں یا جیسا کہ ایم آر ڈی کی تحریک تھی تو پھر مرضی مقتدر حلقوں کی نہیں ، سیاسی قوتوں کی چلے گی ۔ وہ اپوزیشن بھی اپنی مرضی سے کر سکیں گی اور حکومت بھی اپنی مرضی سے چلا سکیں گی ۔ دوسری صورت میں یہی ہوگا ، جو اس وقت ہو رہا ہے ۔ بظاہر ’’ کامیاب ‘‘ اپوزیشن کرنے والی تحریک انصاف حکومت کرنے میں سرے سے ناکام ہوگئی ہے اور تحریک انصاف سے قدرے بہتر حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) بظاہر ناکام اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہیں لیکن مقتدر حلقوں اور سیاسی قوتوں کی یہ ایڈجسٹمنٹ بہت خطرے میں ہے کیونکہ معیشت شدید ترین بحران کا شکار ہے اور عوام میں بہت زیادہ سیاسی بے چینی ہے ۔ اپوزیشن اس صورت حال میں اپنے الگ الگ اہداف کی بجائے ملکی اور عوامی مفاد کیلئے متحدہ اور متفقہ ایجنڈے پر آجائے تو یہ اس کیلئے بہتر ہو گا ۔ عوامی توقعات کے مطابق اپوزیشن نے سیاست نہ کی تو سیاسی خلاء کو انتہا پسند قوتیں پر سکتی ہیں اور مقتدر حلقے مزید مضبوط ہوں گے ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔