لتا اور نور جہاں کی سرحد پر وہ ملاقات جس میں دونوں ملکوں کے فوجی بھی روپڑے

1952 میں بار لتا منگیشکر کا امرتسر جانا ہوا تو ان کو خواہش ہوئی کہ ملکہ ترنم سے ملاقات ہو جو لاہور میں رہتی تھیں اور امرتسر سے لاہور 2 گھنٹے کے فاصلے پر تھا__فوٹو فائل
 1952 میں بار لتا منگیشکر کا امرتسر جانا ہوا تو ان کو خواہش ہوئی کہ ملکہ ترنم سے ملاقات ہو جو لاہور میں رہتی تھیں اور امرتسر سے لاہور 2 گھنٹے کے فاصلے پر تھا__فوٹو فائل

92 سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد ممبئی میں انتقال کرنے والی بھارت کی مایہ ناز گلوکارہ لتا منگیشکر کی زندگی کے کچھ یادگار لمحات قابلِ ذکر ہیں۔

ملکہ ترنم نور جہاں اور بلبلِ ہند لتا منگیشکر کی گہری دوستی کے بارے میں ان کے مداح خوب جانتے ہیں لیکن یقیناً ان کی دوستی کے آغاز سے بہت کم لوگ ہی واقف ہوں گے۔

پہلی ملاقات:

لتا منگیشکر ،نور جہاں کو اپنا گرو مانا کرتی تھیں، وہ ان سے کافی حد تک متاثر تھیں، برصغیر کی دونوں عظیم گلوکاراؤں کی ملاقات 1945 میں فلم 'بڑی ماں' کے سیٹ پر ہوئی جب نور جہاں اس وقت کی مشہور گلوکارہ تھیں۔

معروف رائٹر اور فلم ساز  نسرین منی کبیر اپنی کتاب میں لتا منگیشکر کی نورجہاں سے ملاقات کے بارے میں لکھتی ہیں کہ لتا منگیشکر کے مطابق  ’ایک دن اُن کی بڑی ماں یعنی نور جہاں سے ایک اسٹوڈیو میں ملاقات ہوئی اور  مجھے ان کے سامنے گانا گانے کو کہا گیا۔

نور جہاں کی پیشگوئی:

لتا نے بتایا تھا کہ 'جب میں نے گانا گایا تو اس وقت نور جہاں نے کہا کہ تم فلموں میں گایا کرو، انہوں نے میری تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک دن یہ بہت بڑی گلوکارہ بنے گی'۔

بعدازاں دونوں کی دوستی پروان چڑھنے لگی لیکن تقسیمِ ہند کے بعد نور جہاں پاکستان آگئیں اور یوں دو سہیلیاں ایک دوسرے سے دور ہوگئیں۔

دونوں کی واہگہ پر ملاقات:

فوٹو فائل
فوٹو فائل

 1952 میں ایک  بار لتا منگیشکر کا  امرتسر جانا ہوا تو ان کو خواہش ہوئی کہ ملکہ ترنم سے ملاقات ہو جو لاہور میں رہتی تھیں اور امرتسر سے لاہور 2 گھنٹے کے فاصلے پر تھا۔

لتا نے نور جہاں کو فون کیا اور کئی دیر تک فون پر گپ شپ لگانے کے بعد  واہگہ سرحد پر ملاقات کا فیصلہ کیا۔

مقبول موسیقار سی رام چندرن نے اپنی سوانح حیات میں لکھا کہ ’میں نے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرکے ان کی ملاقات اُس جگہ کروائی جسے فوجی زبان میں ’نو مین لینڈ‘ کہا جاتا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ’جیسے ہی نورجہاں نے لتا کو دیکھا، وہ دوڑتی ہوئی آئیں اور لتا کو زور سے گلے لگا لیا، دونوں کی آنکھوں سے آنسو چھلک رہے تھے اور ہم لوگ  جو یہ نظارہ دیکھ رہے تھے وہ اپنے آنسو نہیں روک پائے، یہاں تک کہ دونوں طرف کے فوجی بھی رونے لگے۔‘

موسیقار نے سوانح حیات میں یہ بھی بتایا کہ نور جہاں لتا کے لیے لاہور سے مٹھائی اور بریانی لائی تھیں، نور جہاں کے شوہر بھی ان کے ساتھ تھے اور لتا کے ساتھ ان کی بہنیں  مینا اور اوشا بھی تھیں۔

مزید خبریں :