بلاگ
Time 07 مارچ ، 2022

ناکامی عشق یا کامیابی، دونوں کا حاصل خانہ خرابی

ہوسکتا ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد کا کوئی واضح شیڈول سامنے آجائے لیکن میرے خیال میں یہ وقت تحریکِ عدم اعتماد کا نہیں ہے ۔ اپوزیشن نے بہت تاخیر کر دی ہے۔ آئندہ عام انتخابات میں صرف ڈیڑھ سال باقی رہ گیا ہے ۔ اس کےلئے وہ وقت بہترین تھا ، جب 2020ء میں اپوزیشن کے سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) کی تشکیل کے بعد پہلی مرتبہ تحریکِ عدم اعتماد دلا نے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔

تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی اور ناکامی دونوں صورتوں میں نہ صرف اپوزیشن بلکہ پاکستان کی سیاست کیلئے سنگین مسائل پیدا ہونگے ۔ کامیابی کی صورت میں اپوزیشن کا کوئی ہوم ورک نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نےاگرچہ یہ واضح کر دیا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد آئندہ وزیر اعظم مسلم لیگ (ن) سے ہو گا کیونکہ قومی اسمبلی میں ان کی نشستیں زیادہ ہیں لیکن صرف وزیر اعظم کے معاملے پر اتفاق سے سارے مسائل حل نہیں ہو جائیں گے ۔

گزشتہ ساڑھے تین سال میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے اپوزیشن کے بقول جو خرابیاں پیدا کی ہیں ، انہیں آئندہ ڈیڑھ سال کے مختصر وقفے میں ٹھیک کرنا موجودہ اپوزیشن کی نئی حکومت کے بس میں نہیں ہو گا ۔ نئی حکومت میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کو آئندہ عام انتخابات میں ان تمام خرابیوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر لاد کر اترنا ہو گا ۔ وہ ان تمام خرابیوں کی ذمہ دار قرار پائیں گی ۔ تھوڑی مدت والی حکومت کی یہ بہت بڑی قیمت ہو گی ۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ نئی حکومت کی تشکیل بھی کوئی آسان مرحلہ نہیں ہو گا ، اس کے لئے پارلیمنٹ کی ان چھوٹی سیاسی جماعتوں اور گروپوں پر انحصار کرنا ہو گا ، جن پر اس وقت وزیر اعظم عمران خان کا انحصار ہے ۔ عمران خان کو ان سیاسی جماعتوں اور گروہوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے و ہ کچھ نہیں کرنا پڑا تھا ، جو اپوزیشن کی جماعتوں کو کرنا پڑے گا ۔ انہیں عمران خان سے زیادہ اس حمایت کے لئے قیمت ادا کرنا پڑے گی ۔

 اس طرح ان کی مجوزہ نئی حکومت کئی طرح کے دباؤکا شکار ہو گی ، جو عمران خان پر بوجوہ نہیں تھا ۔ عمران خان کی حکومت کے خراب طرز حکمرانی ، مہنگائی اور مقبولیت میں کمی کی وجہ سے دباؤ ڈالنے والی قوتیں خود دباؤکا شکار ہیں اور تحریکِ عدم اعتماد انہیں اس دباؤسے نکالنے کےلئے ’’ سیفٹی والوو‘‘ ( Safety Valve ) ہو سکتی ہے ۔

 اس دباؤسے نکلنے کے بعد یہ قوتیں نئی حکومت پر دباؤ بڑھانے میں زیادہ آسانی محسوس کریں گی اور آئندہ عام انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج لانے کے لئے وہ سیاسی ماحول سازگار بنا چکی ہوں گی اور لوگوں کے ذہن تیار کر چکی ہوں گی ۔ پاکستان کی سیاست کی کیمسٹری اب تو بچہ بچہ سمجھتا ہے ۔ مذکورہ بالا دلیل کی تائید کےلئے مزید وضاحتوں کی ضرورت نہیں ۔

بلاول بھٹو زرداری نے جس فراخ دلی سے مسلم لیگ (ن) کا وزیر اعظم لانے کی بات کی ہے ، اس کا سبب شاید یہ ہو سکتا ہے کہ انہیں مسلم لیگ (ن) کو ایک باری دینا ہو تاکہ اگلی باری پیپلز پارٹی کی ہو لیکن تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے اور موجودہ اپوزیشن کی نئی حکومت کی تشکیل کے مرحلے پر پہنچنا اس قدر آسان نہیں ہے ۔ اس کےلئے سمجھوتوں کی کٹھن راہوں سے گزر نا پڑے گا ۔ راستے میں عوامی سیاست کی قربانیاں بھی دینا پڑیں گی ۔

 زیادہ امکان یہی ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہی نہ ہو سکے کیونکہ حقیقی مقتدر قوتیں تحریک انصاف کی حکومت کو مزید بڑے سمجھوتوں پر مجبور کر سکتی ہیں اور اپوزیشن کا سارا کھیل پلٹ کر اسے ناکامی سے دوچار کر سکتی ہیں ۔

 اگر ان قوتوں نے سمجھا کہ تحریک انصاف کی غیر مقبول حکومت کو ہٹانا لازمی ہو گیا ہے تو موجودہ اپوزیشن کو اقتدار دینے کی بجائے وہ آئینی بحران بھی پیدا کر سکتی ہیں ، یوں اپوزیشن تحریکِ عدم اعتماد کے ’’ جال ‘‘ (Trap ) میں پھنس چکی ہے۔ تحریک کی کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں وہ اس جال میں پھنسی رہے گی اور اس سے نکلنے کے لئے اسے بھی بڑے سمجھوتے کرنا پڑیں گے ۔

اس جال سے سمجھوتوں کے بغیر نکلنے کا ایک راستہ عوامی سیاست ہے ۔ عوامی لانگ مارچ کرکے پاکستان پیپلز پارٹی اس راستے پر گامزن ہے ۔ اگر 2021ء میں پی ڈی ایم کا اتحاد نہ ٹوٹتا اور پی ڈی ایم کا مشترکہ لانگ مارچ ہو جاتا تو آج پاکستان کی سیاست کا نقشہ مختلف ہوتا ۔ اس لانگ مارچ کو روکنے کے لئے پی ڈی ایم کو توڑا گیا ۔ مسلم لیگ (ن) کی یہ ضد تھی کہ اپوزیشن کی جماعتیں پارلیمنٹ سے اپنے ارکان کو مستعفی کرائیں۔

 مولانا فضل الرحمن بھی ان کی تائید کر رہے تھے جبکہ پیپلز پارٹی کی قیادت یہ تجویز دے رہی تھی کہ ایوان کے اندر تبدیلی کےلئے کوششیں کی جائیں اور دباؤ بڑھانے کےلئے لانگ مارچ کیا جائے ۔ لانگ مارچ اس وقت ہو جاتا تو بہتر تھا لیکن عوامی سیاست کا راستہ جب بھی اختیار کیا جائے ، اس میں تاخیر نہیں ہو تی ۔ اب بھی وقت ہے اپوزیشن عدم اعتماد کے جال سے نکلے اور عوامی سیاست کا راستہ اختیار کرے ۔ 

تحریکِ عدم اعتماد نہ لائی جائے تو بہتر ہو گا ۔ یہ ایک قدم کی پسپائی ہے ، جو زیادہ نقصان دہ نہ ہو گی ۔ پی ڈی ایم اپنے 27مارچ والے لانگ مارچ پر توجہ دے ۔ یہ پیش قدمی زیادہ سود مند ہو گی ۔ عوامی ایشوز پر عوامی سیاست ہی پاکستان کی موجودہ سیاسی کیمسٹری کوتبدیل کر سکتی ہے ۔ ورنہ تحریکِ عدم اعتماد سے جو حاصل ہوگا ،اس پرتو یہ شعر صادق آتا ہے۔

ناکامی عشق یا کامیابی

دونوں کا حاصل خانہ خرابی


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔