Time 10 مارچ ، 2022
بلاگ

پر دل نہیں مانتا!

وزیر اعظم عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے اپوزیشن نے اپنی عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرا دی۔ اپوزیشن جماعتیں پہلے ہی عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے ایک ہو چکی ہیں اور اب ایک ایک کر کے تحریک انصاف کے باغی دھڑے نمودار ہو رہے ہیں اور ایسی باتیں کر رہے ہیں جس سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ عمران خان کے مخالفوں کے ساتھ اُن کی ہمدردیاں ہیں۔

 جہانگیر ترین گروپ تو پہلے سے موجود تھا،علیم خان گروپ بھی بڑی زبردست ٹائمنگ کیساتھ عدم اعتماد کی تحریک کے قومی اسمبلی سیکریڑیٹ میں جمع ہونے سے ایک دن قبل اچانک نمودار ہوا اور جہانگیر ترین گروپ میں شامل ہوگیا اور یہ اعلان کر دیا کہ عثمان بزدار کو ہٹاؤ اُس کے بعد ہی وزیر اعظم سے کوئی بات ہو گی۔ 

عدم اعتماد کے متعلق علیم خان گروپ کا کہنا ہے کہ اس کا فیصلہ جہانگیر ترین کریں گے۔ جس روز عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی گئی اسی روز خبر آ گئی کہ تحریک انصاف کا ایک اور باغی چھینا گروپ بھی سامنے آرہا ہے۔ بلوچستان میں سردار یار محمد رند اور جام یوسف حکومت کے خلاف ساز باز میں مصروف ہیں۔

 عمران خان کے اتحادیوں میں مسلم لیگ ق اب واضح طور پر اپوزیشن کے قریب آ رہی ہے اور حیران کن طور پر اپنی بیماری کے باوجود چوہدری شجاعت حسین لاہور سے اسلام آباد تشریف لائے اور آتے ہی مولانا فضل الرحمٰن سے اُن کے گھر ملاقات کے لیے چلے گئے اور توقع یہ ہے کہ آج وہ آصف علی زرداری سے بھی ملیں گے۔

 یہ سارا کھیل شہباز شریف اور آصف علی زرداری کی میٹنگز سے شروع ہوا۔ پھر شہباز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن ایک ساتھ بھی اور علیحدہ علیحدہ بھی ق لیگ کے رہنماؤں سے ملے۔ یہ سب کچھ ایسے ہو رہا ہے جیسے بٹن سے کوئی کنٹرول کر کے ایک ایک کر کے تمام عمران خان مخالفین کو سامنے لا رہا ہو۔ میں نہ کسی پر الزام لگا رہا ہوں، نہ ہی میرے پاس کوئی ثبوت ہیں کہ اس سارے کھیل کے پیچھے کون ہے لیکن میرا دل نہیں مانتا کہ جو نظر آ رہا ہے وہ ویسے ہی ہے اور یہ ایک قدرتی عمل ہے۔

 ان سب سرگرمیوں کو دیکھ کر میرے ذہن میں سوال پیدا ہو رہے ہیں اور مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کچھ نہ کچھ غلط ہو رہا ہے۔ میں ہمیشہ سے کہتا رہا کہ عمران خان پولیٹکل انجینئرنگ کے نتیجے میں اقتدار میں آئے، میں نے عمران خان کی حکومت کی غلط پالیسیوں کی کھل کر مخالفت کی اور جو کچھ وزیر اعظم نے اچھا کیا اُس کی تعریف بھی کی لیکن میں یہ ضرور کہتا رہا کہ اگر عمران خان غلط طریقہ سے آئے تو اُس کا مطلب یہ نہیں کہ اُنہیں غلط طریقے سے ہی نکالا جائے۔ اگر سب کچھ قدرتی اور خالص سیاسی عمل کا نتیجہ ہے تو پھر اسے سب کو قبول کرنا چاہیے۔

میں نے 17 فروری کو جنگ کے لیے ایک کالم بعنوان ’’سیاستدان پھر استعمال ہو رہے ہیں؟‘‘ لکھا جس میں مَیں نے حزبِ اختلاف کے ایک اہم ذریعے کا حوالہ دیتے ہوے لکھا : ’’مجھے بتایا گیا کہ پی پی پی اور پی ڈی ایم کو جو امیدیں وابستہ ہیں اُس کے لیے آج بھی اُن کا بھروسہ اپنے زورِ بازو پر نہیں۔ شہباز شریف، مولانا فضل الرحمٰن اور آصف علی زرداری اُن چند لوگوں میں شامل ہیں جن کو کھیل کی جزیات کے بارے میں آگاہی ہے۔‘‘ 

میں نے یہ بھی لکھا کہ اپوزیشن استعمال ہو رہی ہے اور ہو سکتا ہے پی پی پی اور پی ڈی ایم کو وہ حاصل نہ ہو جس کی وہ توقع لگائے بیٹھے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ ایسے کھیل کا حصہ بننے سے اگر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہی ہو گا کہ سیاستدان پھر استعمال ہو گئے۔ 

میں نے یہ بھی لکھا کہ سیاستدانوں کو ایک دوسرے کی مخالفت اور حکومتوں کو گرانے کی خواہش میں اس قدر فرسٹریشن میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ وہ سہاروں کی طرف دیکھنا شروع کر دیں۔ ’’مجھے بتایا گیا کہ میاں شہباز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کی حالیہ ملاقاتیں اور پی ٹی آئی حکومت کے اتحادیوں سے رابطے کھیل کا حصہ ہیں۔

 اپوزیشن امید سے ہے کہ چاہے ق لیگ اور ایم کیو ایم نے کیسا ہی جواب اُن کو ان رابطوں میں دیا، جب وقت آئے گا یہ اتحادی اپوزیشن کے ساتھ ہوں گے۔ اس کے علاوہ حکمران جماعت کے کوئی پچیس تیس ایم این ایز بھی اپوزیشن کی جھولی میں ہوں گے۔ جو پلان بنایا گیا اُس کے مطابق فروری کا آخری یا مارچ کا پہلا ہفتہ اہم ہو گا۔‘‘ یہ سب کچھ میں نے 17 فروری کو لکھا اور جیسا لکھا ویسا ہی ابھی تک ہو رہا ہے۔ اب میں شک کیوں نہ کروں؟ میرے ذہن میں سوال پیدا کیوں نہ ہوں؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔