Time 14 مارچ ، 2022
بلاگ

’’غدار‘‘، ’’فوج دشمن‘‘ سیاستدان

پہلے تو ایک دوسرے کے خلاف کرپٹ کرپٹ، چور چور اور ڈاکو ڈاکو کے الزامات لگائے جاتے تھے۔ تحریک انصاف اگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر یہ الزام لگاتی کہ شریف برادارن اور زردار ی چور ہیں، اربوں کھا گئے، پاکستان کے خزانے کو خالی کر دیا، قومی دولت لوٹ کر ملک سے باہر لے گئے تو اپوزیشن کی یہ جماعتیں عمران خان کو اے ٹی ایم کا طعنہ دیتی رہیں، آٹا چور، چینی چور کہتی رہیں، کبھی اُن کی بہن علیمہ خان کا حوالہ دیتے ۔ حال ہی میں تو بلاول نے عمران خان کی اہلیہ پر بھی کرپشن کے الزامات لگا دیئے۔

لیکن جب سے اپوزیشن کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی ہے تب سے یہ سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما ایک دوسرے کے خلاف غداری اور فوج دشمنی کے فتوی بھی جاری کر رہے ہیں۔ دونوں طرف سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مخالف پاکستان کے خلاف سازشوں میں مبتلا ہے، بھارتی اور دوسرے بیرونی دشمنوں کا ایجنٹ ہے، مودی کا یار ہے اور یہ کہ پاکستان کی فوج کے خلاف ہے۔ 

بے نظیر بھٹو سے نواز شریف اور اب عمران خان کو پاکستان کے لیے سیکورٹی رسک تک کہا گیا اور یہ سب کہنے والے سیاستدان خود ہیں۔ یعنی ایک دوسرے کا منہ کالا کرنے میں مصروف ہیں۔ سیاست کا حوالہ کبھی یہاں معتبر نہیں رہا اس لیے کہ سیاستدانوں نے ہی سیاست کو ہمیشہ کرپشن، جھوٹ، بے ایمانی اور ملک دشمنی سے جوڑا۔ ہمیشہ ایک دوسرے کو ہی بُرا بھلا کہا اور اب تو حدیں ہی پار کی جا رہی ہیں۔ ایک دوسرے پر ملک دشمنی اور فوج مخالفت کے الزامات اس لیے لگائے جاتے ہیں تا کہ فوج اور اسٹیبلشمنٹ ایسے الزامات لگانے والے کو اچھا جانے، اپنا ہمدرد مانے اور کسی نہ کسی طرح سے اُنہیں نیوٹرل کی سپورٹ حاصل ہو جائے۔ یہی کچھ ان دنوں ہو رہا ہے۔ 

عمران خان اور اُن کے پارٹی رہنمائوں کے تازہ حملے اور بلاول، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کے جوابی حملوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور غصے کا اظہار اور سنگین الزامات کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ سیاسی درجۂ حرارت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ ایک طرف اگر عمران خان عوامی جلسوں میں مخالفوں کے نام بگاڑ رہے ہیں تو دوسری طرف بلاول بھی غصہ میں آپے سے باہر ہو گئے، وزیر اعظم کے مرحوم والد اور اہلیہ پر الزامات لگاتے ہوئے تُوتُو پر اتر آئے۔ اگر عمران خان نے زرداری کو بندوق کی دھمکی دی تو بلاول نے بھی دھمکی دے ڈالی اور کہا تیرے (وزیر اعظم عمران خان) ساتھ وہ کروں گا کہ تیری نسلیں بھی یاد کریں گی۔

 مولانا فضل الرحمٰن ویسے تو ٹھنڈے مزاج کے آدمی ہیں لیکن یہ کہہ دیا کہ عمران خان پاگل نہیں بلکہ بائولا ہو گیا۔ شہباز شریف بھی غصہ میں نظر آئے اور عمران خان کو یاد دلایا کہ وہ فوج کے بارے میں ماضی میں کیا کیا کہا کرتے تھے۔ دونوں اطراف کے دوسرے رہنما بھی اپنی پریس کانفرنسوں اور ٹی وی ٹاک شوز میں ایک دوسرے پر گند ہی اچھالتے نظر آ رہے ہیں۔یہی حال ان سیاسی جماعتوں کے ووٹروں اور فالوورز کا ہے۔ ایک دوسرے کے رہنمائوں پر الزامات لگانا، اُن کی بے عزتی کرنا، اُن کا مذاق اور تمسخر اُڑانا اور یہاں تک کہ گالم گلوچ کرنا، اب معمول بن چکا ہے اور سوشل میڈیا اس ٹرینڈ کی گواہی دیتا ہے۔ یعنی سیاست میں کسی کی عزت محفوظ نہیں۔

 اگر کوئی سیاست پر بات کرے تو اُس کی بھی عزت محفوظ نہیں۔ سیاسی بنیادوں پر معاشرے میں ایک ایسی تفریق پیدا کر دی گئی ہے کہ مخالف کے لیے کوئی احترام نہیں۔ سیاسی رہنمائوں نے ایک دوسرے کے خلاف اس نفرت کو عوام میں ایک ایسے زہر کی طرح ٹرانسفر کر دیا کہ پڑھے لکھے ڈاکٹرز، انجینئرز، بزنس گریجویٹس، پروفیسرز وغیرہ تک مخالفین کے خلاف بدزبانی اور گالم گلوچ تک کرتے نظر آتے ہیں۔ جیسے کہ اُن کےرہنما کہتے ہیں عوام بھی مخالف رہنمائوں پر غداری کا الزام لگاتے ہیں، اُن پر گندے اور گھٹیا الزامات لگاتے ہیں، خواتین تک کو نہیں بخشتے، جو مر چکے اُن تک کا خیال نہیں رکھتے۔

حرف آخر: سوشل میڈیا پر ایک وڈیو دیکھی جس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے کچھ جیالے مرحوم ضیاالحق کی قبر پر گھٹیا نعرے لگاتے نظر آئے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس توہین آمیز حرکت پر بلاول بھٹو یاآصف زرداری نے کوئی مذمتی بیان دیا یا خاموشی ہی اختیا رکئے رکھی لیکن یہ وہ عمل ہے جس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔