بلاگ
Time 14 مارچ ، 2022

ممکنہ سیاسی تصادم سے ابھرتا منظر نامہ

وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد کے بعد سیاسی تصادم اور کشیدگی میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ، وہ بہت تشویش ناک ہے ۔ اس سے مجموعی طور پر سیاسی اور جمہوری عمل کیلئے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں ۔ یہ سیاسی قیادت کے تدبر کی آزمائش کا وقت ہے ۔

حکومت نے تحریکِ عدم اعتماد کو ناکام بنانے اور اپوزیشن نے تحریک کو کامیاب بنانے کے لئےہر حربہ استعمال کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے ۔ تحریک کی کامیابی کی صورت میں وزیر اعظم عمران خان سڑکوں پر آکر احتجاج کرنے اور تحریک کی ناکامی کی صورت میں اپوزیشن نے احتجاج کو گلی محلوں تک لے جانے کا اعلان کیا ہے ۔ اس طرح تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے بھی تصادم کے غیر معمولی حالات پیدا ہونے کے امکانات ہیں اور ووٹنگ کے بعد بھی غیر متوقع واقعات رونما ہو سکتے ہیں ۔ 

سب سے زیادہ تشویش ناک صورت حال ووٹنگ والے دن اور ووٹنگ کے دوران پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر پیدا ہو سکتی ہے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کو ارکان قومی اسمبلی کو پارلیمنٹ ہاوس جانے سے ہر حال میں روکنا ہے جبکہ اپوزیشن کو تحریک انصاف کے باغی ارکان اور حکومت کی اتحادی جماعتوں کے ارکان کو ہر حال میں پارلیمنٹ ہائوس لانا ہے۔ تحریکِ عدم اعتماد پر رائے شماری یا ووٹنگ والے دن حکمران جماعت تحریک انصاف نے اسلام آباد کے ڈی چوک پر اپنی سیاسی طاقت کے مظاہرے کا بھی اعلان کیا ہے۔ صورت حال سے نمٹنے کے لئے اپوزیشن نے بھی اپنے کارکنوں کو تیار رہنے کا حکم دیا ہے ۔ اس طرح حالات سیاسی تصادم کی طرف جا رہے ہیں ۔

تصادم کے آغاز کا ہم نے اس وقت مشاہدہ کیا، جب پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے ارکانِ قومی اسمبلی کے ’’ تحفظ ‘‘ کے لئے انصار الاسلام کے رضا کاروں کو پارلیمنٹ لاجز اسلام آباد میں تعینات کر دیا جب کہ حکومت نے ان رضا کاروں کو وہاں سے باہر نکالنے کے لئے طاقت کابے دریغ استعمال کیا ۔ ساری دنیا نے دیکھا کہ عوام کے منتخب نمائندوں کے ساتھ سیکورٹی اداروں کی جھڑپیں ہوئیں ۔ کمانڈو آپریشن میں وہ کچھ ہو گیا ، جو نہیں ہونا چاہئے تھا ۔ پارلیمنٹ لاجز کے واقعہ کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کی کال پر ملک کی تمام چھوٹی بڑی شاہراہیں بند ہو گئیں۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کو یہ کہنا پڑا کہ ’’ یہ کوئی ملک ہے یا بنانا ( Banana ) اسٹیٹ ‘‘ ۔ یہ ناگزیر تصادم کی ایک جھلک ہے ۔ اس سے بھی زیادہ انتشار اور انارکی والی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے ، جو ہر جمہوریت پسند پاکستانی کے لئے تشویش ناک ہے ۔

جس مرحلے پر وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لائی گئی ہے، یہ مرحلہ پاکستان کی سیاست میں ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ سے سب کیلئے جان چھڑانے کا مرحلہ ہے ، جو 2018 ء کے عام انتخابات کے بعد قائم کیا گیا تھا۔ ’’ سب ‘‘ میں سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں شامل ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی کے باعث عوام میں جو سیاسی بے چینی پیدا ہوئی ہے اور جس تیزی سے تحریک انصاف کی قیادت خاص طور پر وزیر اعظم عمران خان کی مقبولیت کم ہوئی ہے ، وہ ان قوتوں کیلئے غیر متوقع تھی ، جو تحریک انصاف اور اس کی حکومت کی پشت پناہی کر رہی تھیں ۔ اس غیر متوقع صورتِ حال میں ان قوتوں کی وہ سیاسی اسکیم نہیں چل سکے گی ، جو انہوں نے پانچ یا دس سال کے لئےبنا رکھی تھی ۔ اب اس سیاسی اسکیم کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ اس لئے حکومت کی اتحادی جماعتوں نے گزشتہ ساڑھے تین سال میں جومسائل پیدا کئے اور حکومت کا ساتھ دیتی رہیں ،وہ اب اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہیں ۔

بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے جو کچھ کیا ہے یا جو کچھ وہ آگے کرنے جا رہی ہیں ، وہ انہیں کرنا چاہئے تھا اور آگے بھی کرنا چاہئے کیونکہ انہیں آئندہ کےلئے اپنی سیاسی جگہ بنانی ہے لیکن اس با ت کا ضرور خیال رکھنا چاہئے کہ تصادم کے حالات سے غیر سیاسی قوتوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے اور ’’ سسٹم ڈی ریل ‘‘ نہ ہو ۔ مجھے پتہ نہیں کیوں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ علاقائی اور عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں نے پاکستان میں اس طرح کے حالات پیدا کر دیئے ہیں ، جو1977 ء میں جنرل ضیاء الحق کو لانے اور 1999 ء میں جنرل پرویز مشرف کو لانے کے لیے پیدا کئے گئے تھے ۔ میں پھر کہہ رہا ہوں کہ اس وقت سیاست دانوں کے تدبر کا امتحان ہے ۔

تصادم اسلئے بھی ناگزیر ہے کہ ڈیفیکشن اور فلورکراسنگ کو روکنے کیلئے آئین کی شق 63 ( اے ) کی تشریح پر حکومت اور اپوزیشن میں شدید اختلاف ہے ۔ تحریکِ عدم اعتماد پر رائے شماری پر اسپیکر قومی اسمبلی کی ممکنہ رولنگ قانونی سے زیادہ سیاسی جنگ بن سکتی ہے ۔ پارلیمنٹ میں بھی ناخوشگوار واقعات رونما ہو سکتے ہیں اور پھر سیاسی لڑائی بقول مولانا فضل الرحمٰن پارلیمنٹ کے باہر سڑکوں ، گلیوں اور محلوں تک پہنچ سکتی ہے ۔

دوسری جانب تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو موجودہ حکومت ختم ہو جائے گی اور تحریک اگر ناکام ہوتی ہے تو بھی حکومت کو عوامی بے چینی اور اپوزیشن کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ پہلے کی طرح حکومت نہیں چلائی جا سکے گی ۔ اسلئے تحریک کے پاس تصادم کا ایک ہی راستہ ہے ۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حکومت کو ہٹانے کا جمہوری اور سیاسی طریقہ اختیار کریں ۔ تصادم کا ماحول نہ بننے دیں ۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد حالات سے بہت باخبر ہیں ۔ انہوں نے کہا ہے کہ صلح صفائی سے معاملات طے ہونے چاہئیں اور مذاکرات کے ذریعے کوئی حل نکالنا چاہئے ۔

اپوزیشن ایک سال انتظار اور الیکشن کی تیاری کرے ۔ اپوزیشن تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرے۔ یہ نہ ہو کہ وہ 10 سال لائن میں لگےرہے۔ شیخ رشید نے یہ بات اگرچہ اپوزیشن کے لئےکی ہے لیکن یہ بات حکومت کے لئےبھی ہے ، جو شیخ رشید نہیں کر سکتے تھے ۔ 10 سال کے لئے سسٹم ڈی ریل ہو گیا تو سب کیلئے ہو گا۔ میرا اپوزیشن کی قیادت کو مشورہ ہے کہ وہ اس صورت حال میں آصف علی زرداری کی رہنمائی حاصل کریں، وہ ایک زیرک اور بڑے سیاستدان ہیں جو حالات کا تجزیہ کر تے ہوئے Visionary سیاست کرتے ہیں، اور ان کے وژن کے مطابق چلیں ۔ اپنے احتجاج کو اس طرح پر امن رکھیں ، جس طرح پیپلز پارٹی نے لانگ مارچ کیا ۔ تحریک انصاف کا سیاسی بیانیہ دم توڑ چکا ہے ۔ تصادم کی صورت حال سے بچنا ہے ۔ تصادم سے جو منظرنامہ ابھرتا ہوا میں دیکھ رہا ہوں ، وہ ٹھیک نہیں ہے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔