24 مارچ ، 2022
بحیثیت قوم اگر ہم اپنا محاسبہ کریں تو اِس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ ہم میں انسانیت باقی نہیں رہی اور یہ ہمارے اندر موجود خرابیوں میں سب سے بڑی خرابی ہے۔ معاشرے کے کردار اور اخلاقیات کی گراوٹ کی حدیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔
سوچتا ہوں نجانے ہم اور کتنا گریں گے؟ آئے دن کے واقعات ہمیں جانوروں سے بھی بدتر ثابت کر رہے ہیں۔ یہاں کیا کچھ نہیں ہوا کہ اب خبر آئی کہ پاپڑ خریدنے پر باراتیوں کا پاپڑ فروش سے جھگڑا ہوا، باراتیوں نے نجی شادی ہال کے اندر اس پاپڑ فروخت کرنے والے کو تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا، مقتول کی لاش وہیں شادی ہال میں پڑی رہی۔ ظلم اور بے حسی کا اندازہ لگائیں کہ وہاں موجود باراتی اور شادی میں شرکت کرنے والے ہال میں پڑی لاش کی موجودگی میں کھانا کھاتے رہے۔
مقتول کی لاش شادی ہال کے فرش پر پڑی تھی جبکہ اسی ہال میں کرسیوں میز پر بیٹھے باراتی اور مہمان پرسکون ماحول میں کھانا کھاتے رہے۔ لاش کے پاس کوئی نہ تھا اور اُس پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ سوشل میڈیا پر وڈیو میں جو کچھ دیکھا وہ درحقیقت ہمارے معاشرہ کا عکس تھا کیوں کہ کوئی ایک دو درجن نہیں بلکہ شادی میں شریک سبھی اسی معاشرہ کے افراد ہیں۔ اُنہی کے سامنے پاپڑ بیچنے والے پر تشدد ہوا، اُنہی کے سامنے اُس کا قتل ہوا، اُنہی کے سامنے وہیں فرش پر لاش چھوڑ دی گئی اور وہیں سب کے سب بیٹھے کھانا کھاتے رہے۔ انسان یہ سب کچھ کیسے کر سکتے ہیں لیکن افسوس، ہم شاید انسان نما جانوروں کا مجمع بن چکے ہیں۔
چند دن پہلے میں نے اپوزیشن کے اہم رہنما سے بات کی اور پوچھا کہ اگر عمران خان حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک کامیاب ہو گئی تو پھر وہ خان صاحب کی حکومت کے اُن اقدامات کے بارے میں کیا فیصلہ کریں گے جن کا تعلق اسلام سے ہے اور خصوصاً اُس اتھارٹی کے بارے میں جس کے بنانے کا مقصد پاکستانی قوم کی اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت کرنا ہے۔ اس پر اپوزیشن کے رہنما نے طنزاً کہا کہ عمران خان کا کردار اور کردار سازی سے کیا تعلق۔
جس پر میں نے عرض کی کہ اپوزیشن کی عمران خان کے بارے میں مخالفت اور دشمنی اپنی جگہ لیکن خان صاحب نے تعلیمی نصاب میں اسلام کو پڑھانے اور یہاں رہنے والے افراد کی تربیت اور کردار سازی کے لیے جو اتھارٹی بنائی وہ بہت ہی احسن اقدام ہیں، جس کو اگر فعال طریقہ سے کام کرنے دیا جائے تو ہمارے معاشرہ کی کردار سازی کے لیے اس کا بہت اہم کردار ہو گا جو ہمیں موجودہ حیوانیت سے انسانیت کی طرف لانے کا واحد رستہ ہے۔ بغیر کردار سازی اور تربیت کے ہم انسانیت کو روز روز شرمندہ ہی کرتے رہیں گے۔
میں نے اپوزیشن کے رہنما سے یہ بھی کہا کہ پی پی پی کی طرح ن لیگ بھی ایک سیکولر جماعت بن چکی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں اپوزیشن حکومت میں آنے کے بعد سیکولر طبقہ کو خوش کرنے کے لیے عمران خان کے ان بہترین اقدامات کو ریورس نہ کر دے۔ معاشرہ کی کردار سازی اور تربیت کے لیے بنائی جانی والی اتھارٹی ابھی نئی ہے، اس کو مستقل کرنے کے لیے ابھی پارلیمنٹ میں قانونی سازی بھی ہونی ہے جس کے لیے مجھے امید ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس کو ووٹ کریں گی۔
اگرچہ اپوزیشن کے اس رہنما نے مجھے یقین دلایا کہ وہ اس اتھارٹی کی حمایت کریں گے۔ میں نے سوچا ایسے اچھے کام کی حمایت تو اپوزیشن میں رہ کر بھی ہو سکتی ہے لیکن میں نے تو کسی ایک بھی اپوزیشن کے رہنما چاہے اُس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو (حتیٰ کہ جماعت اسلامی کو بھی) اس اتھارٹی کے قیام یا اسلام سے متعلق عمران خان کی حکومت کے دیگر اقدامات کی حمایت یا تعریف کرتے نہیں سنا۔
عمران خان کی معاشی پالیسیوں، گورننس، مخالفیں پر بے جا الزامات، اُن کے غصہ اور ضد پر اعتراض اپنی جگہ لیکن جس طرح عمران خان نے دنیا بھر میں بار بار اسلام اور مسلمانوں کا مقدمہ پیش کیااُس کی مثال نہیں ملتی۔ عمران خان نے معاشرہ کی کردار سازی اور تربیت پر بھی بارہا زور دیا اورہمارے میڈیا اور سیکولر طبقہ کی سخت مخالفت اور مذاق اُڑانے کے باوجود فحاشی و عریانیت کے خلاف کھل کر بات کی۔ خان صاحب نے پردے اور شرم و حیا کے فروغ اور خاندانی نظام کے تحفظ کی بات بھی کی۔ اسی تناظر میں اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرہ کی کردار سازی کے لیے اتھارٹی قائم کی۔
جب تک حکومتیں، سیاسی جماعتیں اور ریاست معاشرہ کی کردار سازی اور تربیت کا انتظام نہیں کرلے گی، اس کو اولین ترجیح نہیں بنایا جائے گا، ہم اچھے افراد پیدا نہیں کر سکتے، ایک بہتر قوم نہیں بن سکتے۔ اس لیے میری اپوزیشن سے درخواست ہے کہ عمران خان سے اختلاف ضرور کریں، اُن کو آئینی طریقہ سے رخصت کر سکتے ہیں تو وہ بھی ضرور کریں لیکن معاشرہ کو بگاڑ سے بچانے کے لیے اپنے مخالف سے چڑ کی وجہ سے اُس کے اچھے اقدامات کو تو کم از کم سپورٹ کریں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔