27 مارچ ، 2022
یہ جو کچھ ہورہا ہے تاریخ نے دراصل ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا ہوا ہے۔ دیکھیں اس سے سیاستدان کچھ سیکھتے ہیں یا پاکستانی قوم اپنے آپ کو کچھ تبدیل کرتی ہے؟مارچ کا مہینہ ہے۔ کوئیک مارچ ہے نہ ڈبل مارچ۔ فورس مارچ ہے نہ روٹ مارچ۔سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف خود ہی مارچ میں بری طرح مصروف ہیں۔
مارچ والے خاموش تماشائی ہیں۔ یہ بھی بہت سوں کو برا لگ رہا ہے۔ بڑے بوڑھے آپس میں باتیں کررہے ہیں۔ ماضی میں تو اتنی دیر نہیں لگاتے تھے۔ویسے تو 3½سال سے سویلین آپس میں بر سر پیکار ہیں۔ لیکن مارچ میں تو حد ہوتی جارہی ہے۔ ان چند ہفتوں میں پھڑپھڑاتے لباس اور ڈبل کیبن والوں نے ایک دوسرے کے لیے جو القاب، اصطلاحات، الزامات، خطابات، دشنام، محاورے، کہاوتیں، عرفیتیں، استعمال کی ہیں ایک نئی سیاسی لغت مرتب ہوسکتی ہے۔
آج اتوار ہے۔ آپ بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں کے سوالات میں گھرے ہوں گے۔ دوپہر کے کھانے سے فارغ ہوکر ایک کام تو کریں۔ اپنی اولادوں کو پنسل کاغذ دیں اور یہ کہیں کہ سیاستدان کے بارے میں ان کے ذہن میں جو بھی آتا ہے، کاغذ پر اس کی ڈرائنگ بنائیں۔ پھر دیکھئے کہ کیا ظہور میں آتا ہے، آپ کے بچوں کا تو اسٹیبلشمنٹ سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ نہ انہیں کسی نامعلوم نمبر سے فون آتا ہے۔ ان کے ذہن میں معزز رہنمائوں کا جو بھی تصور آتا ہے وہ سیاستدانوں کی باہمی ’’قصیدہ گوئی‘‘ سے ہی جنم لے رہا ہے۔ کیا یہ قابلِ احترام خواتین و حضرات جو ہماری قیادت کے دعویدار ہیں۔ اپنے ذخیرۂ الفاظ۔ اپنی زبان۔ اپنے تکیۂ کلام کے بارے میں کبھی سوچتے ہیں کہ اس سے ان کا کیا تصور ابھر رہا ہے،بہت پُر ہجوم تماشا لگا ہوا ہے۔ کھڑکی توڑ اتوار ہے۔دو تین روز میں تخت یا تختہ ہونے والا ہے۔
کوئی ہنسے گا کوئی روئے گا
آج خوب تماشا ہوئے گا
اسکول میں نتیجے کے روز ہم اکثر یہ گایا کرتے تھے۔
میں تو بار بار یہ کہہ رہا ہوں نتیجہ کچھ بھی ہو۔ انتقام اور خوفناک انتقام کے تماشے دیکھنے کو ملیں گے۔ایف آئی اے۔ نیب۔ صوبائی پولیس سب کا اوور ٹائم لگے گا۔ دونوں طرف کے خوشامدی۔ ترجمان ڈنکے بجانے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ ملک کو روزانہ کتنا نقصان ہورہا ہے؟ اس کی فکر کسی کو نہیں ہے۔
اسلامی وزرائے خارجہ کانفرنس ایک اہم اہتمام تھا۔ لیکن آپ نے ہم نے دیکھا کہ میڈیا یا عام لوگوں نے اس اجتماع کو وہ اہمیت نہیں دی جو اس کا حق تھا۔ میں خود بھی اس کوتاہی کا مرتکب ہوں کہ مجھے بھی، سارے اخبارات کو اور چینلوں کو چاہئے تھا کہ اسلامی ممالک کے بارے میں تازہ ترین معلومات قوم کے سامنے رکھتے کہ ان ملکوں کی معیشت کیسی ہے۔ خواندگی کی شرح کیا ہے۔ غیر ملکی قرضے کتنے ہیں۔ کتنے خود کفیل ہیں۔ دنیا کی بڑی کمپنیوں میں مسلم ملکوں کی کتنی کمپنیاں ہیں۔ ان ممالک میں صحت اور تعلیم کے لیے کتنی رقم بجٹ میں رکھی جاتی ہے۔
کورونا کے دنوں میں کس ملک کا کیا حال رہا۔ اپوزیشن نے اسے ریاست کا نہیں حکومت کا۔ پاکستان کا نہیں عمران خان کا شو سمجھا۔ حالانکہ کل اگر یہ بر سر اقتدار آئیں گے تو ان ممالک سے ان کا بھی تعلق واسطہ ہوگا۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں طرف سے تنگ ظرفی کا مظاہرہ کیا گیا۔ حکمرانوں کو چاہئے تھا کہ منتخب پارلیمانی لیڈروں سے وزرائے خارجہ کی ملاقاتیں کرواتے۔ اپوزیشن کو بھی اپنے سیاسی اختلافات ایک طرف رکھ کر مسلم وزرائے خارجہ کا خیر مقدم کرنا چاہئے تھا۔ پی پی پی کے چیئرمین بلاول نے تو بہت ہی غیر ذمہ دارانہ بیان دے ڈالا کہ دیکھتے ہیں او آئی سی کیسے ہوتی ہے۔ تاریخ کانپ گئی کہ اس کے نانا نے تو او آئی سی کے اجلاس کے لیے دن رات ایک کردیاتھا۔ نواسہ کیا کہہ رہا ہے؟ ممکن ہے او آئی سی میں شریک رہنمائوں کے انجام سے خوف زدہ ہوکر بلاول ایسا حفظِ ماتقدم کے طور پر کہہ رہے ہوں۔
میں اس اعتماد اور عدم اعتماد کے مخمصے میں کچھ الگ سے سوچ رہا ہوں کہ کروڑوں عوام کے منتخب نمائندے اپنے قائد ایوان سے ناراض کیوں ہوتے ہیں؟ اس پر کوئی تحقیق نہیں کررہا۔ پارلیمانی نظام اور جمہوریت کے غم میں ہم سب دبلے ہوئے جاتے ہیں۔ لیکن اس کے تقاضے پورے نہیں کرتے۔ ایک تو پارٹی اور حکومت کے عہدے الگ الگ ہونے چاہئیں۔ پارٹی چیئرمین الگ ہو۔ وہ قائد ایوان یا وزیرا عظم نہ ہو۔ صرف عمران خان ہی نہیں ہر وزیر اعظم سے ایم این اے صاحبان کو گلہ رہتا ہے کہ وہ ملتے نہیں ہیں۔
ہر نمائندے کو حلقے کی طرف سے بے شُمار مسائل کے حل کا دبائو ہوتا ہے۔ بے روزگاروں کی درخواستیں ہوتی ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ وزیر اعظم سے ان درخواستوں پر حکم صادر کرائے۔ سسٹم نہیں ہے۔ اس لیے وزیروں سے ملاقات سے مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے۔ ماضی میں وزرائے اعظم ایک سیکرٹری کو ارکان اسمبلی سے ملنے۔ ان کا غصّہ ٹھنڈا کرنے کی ذمہ داری سونپتے تھے۔ وزیر اعظم شوکت عزیز نے جناب وقار مسعود کو اس منصب پر مامور کیا تھا۔ میاں نواز شریف کے لیے ایک یاور مہدی یہ کام کرتے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے لیے سلمان فاروقی آگ بجھانے پر مقرر تھے۔ بعض ارکان قومی اسمبلی اجلاس میں بالواسطہ برہمی کا اظہار کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ سردار شیر باز مزاری بتاتے تھے کہ ایسے ایم این اے کے لیے وزیر اعظم بھٹو کہتے تھے کہ شاید خرچی کم ہوگئی ہے۔
عمران خان ارکان اسمبلی سے ملنے ملانے میں غفلت برتتے رہے ہیں۔ عمرانی دَور کے آغاز میں ہی اپنے ایک ہمدم دیرینہ سعید الدین صدیقی کے ہاں نجیب ہارون صاحب کو یہ گلہ کرتے سنا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت۔ امریکہ کی سازشیں۔ اسلامو فوبیا۔ یہ سب اسباب اپنی جگہ۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ عمران خان ارکان اسمبلی کی ایک بڑی تعداد سے باقاعدگی سے ملنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔
کچھ تم کھچے کھچے رہے کچھ ہم کھچے کھچے
اس کشمکش میں ٹوٹ گیا رشتہ چاہ کا
پارلیمانی نظام کا سب سے اولیں تقاضا یہی ہے کہ ایم این اے کا اپنے حلقے کے لوگوں سے فعال رابطہ ہونا چاہئے۔ پارٹی لیڈر کا اپنے منتخب ارکان سے چاہے حکومت میں ہوں یااپوزیشن میں۔ اگر یہ رشتہ کمزور ہوتا ہے تو جمہوریت کمزور ہوتی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔