Time 30 مارچ ، 2022
بلاگ

تحریکِ عدم اعتماد، اہم کیا ہے؟

یہ بات اصولی طورپر درست، برحق وصائب ہےکہ ہارس ٹریڈنگ غیراخلاقی، جمہوریت کش اور زریں سیاسی روایات پر بدنماداغ ہے،لیکن جس طرح اس قبیح فعل کے عیوب آج عیاں ہیں ،ماضی میں بھی پوشیدہ نہ تھے،لہٰذاسوال یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور ان کے ہم نوا جس طرح آج اس عمل کے خلاف سراپا احتجاج ہیں ،قبل ازیں وہ کیوں خاموش بلکہ لوٹوں کو الیکٹ ایبلزکاشرف بخشتے ہوئے باوقاربنا رہے تھے ۔

معززعدلیہ کے پاس تشریح کے حوالے سے صدارتی ریفرنس خدا کرے کہ ایک اصول طے کرنے میں کامران ہوسکے لیکن جب تک ملک میں آمیزش سے پاک جمہوریت استوار نہیں ہوگی،کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتاکہ کس طرح لوٹوں اوربلیک میلنگ کے اُس سلسلے کا سدباب ہوسکے گاجس کاآغاز قیامِ پاکستان کےساتھ ہی ہو گیاتھا۔

 اگرچہ وقت کے ساتھ سیاسی وفاداری بدلنے کے طورطریقے تبدیل ہوتے رہے ہیں لیکن مقصدایک ہی رہاکہ جمہوری روایات کو پامال کرکے ذاتی، گروہی وجماعتی مفادات کو فروغ دیا جا سکے، اس سلسلے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار معاون بلکہ بنیادی رہا،اِس کی وجہ بظاہر یہی رہی کہ کسی جمہوری عدم استحکام کے نتیجے میں اُن کی ضرورت کا احساس زندہ وجاوید رہے۔

قیام پاکستان کے فوری بعد چونکہ حقیقی جمہوری جماعتیں زیرعتاب آئیں اور مسلم لیگ جو جاگیرداروں، سر داروں،خان بہادروں یعنی انگریز کے تنخواہ داروں سے آراستہ تھی، اُسے ملک میں حقیقی سیاست کی بجائے موقع پرست سیاست ہی راس آئی،پھر اشتراکی خوف کے تناظر میں عالمی سامراج امریکاکی بھی یہی منشا تھی کہ پاکستان میں کوئی جمہوری حکومت پنپنے نہ پائے جو خودمختارخارجہ پالیسی کاباعث ہو،یوں امریکا، انگریزکی پروردہ سول وفوجی بیوروکریسی اورملائیت کے گٹھ جوڑ سے جمہوری عدم استحکام کا جو سلسلہ ہوا وہ آج تک جاری ہے۔

 اسکندر مرزا، غلام محمد اور محمد علی بوگرہ سمیت موقع پرست مسلم لیگیوں کے کندھوں پر سوارہوکر اقتدارمیں آئے۔ ری پبلیکن پارٹی کی مہم جوئی کے بعد جب مارشل لاکا طوق قوم کی گردن میں ڈالا گیا تو ایوب خان نے مسلم لیگ کے ایسے ہی عناصر کی مدد سےکنونشن مسلم لیگ کا بت ایستادہ کیا،مسلم لیگ ایک جماعت کی بجائے ڈرائنگ روم پارٹی بن گئی جبکہ بڑے بڑے مفادپرست سیاستدان ایوبی آمریت کی چھتری تلے مفادات کی سیاست کرنے لگے اور یوں بی ڈی ممبران کی بھی فوج ظفر موج سامنے آئی۔

 سیاسی اصولوں سے ناآشنا بلکہ بیزارایسے عناصر نے گویالوٹاسیاست کوایک فن کی شکل دےڈالی۔ صدارتی الیکشن میں ایسے عناصرنے محترمہ فاطمہ جناح پرایک ڈکٹیٹرکو ترجیح دیکر گویا اس امر کا اعلان کردیا کہ اس ملک میں اب خواہ کوئی کتنا ہی پارسایا کیوں نہ ہو،ہوگا وہی جو ایک ڈکٹیٹر چاہے گا۔ 

ایوبی آمریت کے بعد ایسے موقع پرست عناصر کی ایک بڑی کھیپ پیپلزپارٹی کےآدھا تیترآدھا بٹیر نما بھٹو سوشلزم کی چھتری تلے آگئی۔ ضیاء صاحب کا مارشل لاآیا تو مذہبی عناصر مردحق کا نعرہ لگاتے ہوئے اُن کے سپاہی بن گئے، جنرل ضیاءالحق کے بعدمحترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے ادوار میں کیا کچھ نہیں ہوا،آپ کو یاد ہوگاکہ صدرغلام اسحاق خان کے ایماپر پنجاب کی پوری اسمبلی نے میاں نواز شریف کے وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں سے بغاوت کرکے منظور وٹو کے دست پر بیعت کرلی تھی۔

 جنرل مشرف کے دور میں ق لیگ اور پیٹریاٹ گروپ میں کس طرح ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے لوٹے جمع ہوگئے تھے۔ بات پہنچتے پہنچتے جب جناب عمران خان کی تحریک انصاف تک پہنچی تو جہاں تحریک انصاف نے لوٹوں کو الیکٹ ایبلزکا چغہ پہناتے ہوئے باوقار بنانے کی کوشش کی وہاں سیاست میں ایک ایساکلچر متعارف کرایا جس نےباہمی احترام ورواداری پر استوارزریں اصول پامال کرکے رکھ دیے۔ 

دراصل یہی تحریک انصاف کے بانی، سیاست وجمہوریت سے نالاں جنرل حمیدگل کی پلاننگ تھی۔ بہرصورت مسلم لیگ میں موجودہ ابتلا کے دور میں دھڑے نہ بننا اس بات کی گواہی ہےکہ پوری جماعت میاں صاحب کےاس نظریے اورفکرسے متفق ویکسوہے کہ سیاست میں غیر جمہوری قوتوں کا کردارنہیں ہونا چاہیے، بنابریں اسی نکتے میں ملک وملت کی ترقی کا راز ہے،ہمارے پڑوسی ملک بھارت اور بنگلہ دیش کی ترقی کا راز بھی خالص سیاست ہے،چنانچہ یہ ناگزیر ہے کہ آلائشوں سے پاک جمہوریت کیلئے موقع پرست سیاستدانوں کا سدباب کیا جائے۔

تحریک عدم اعتماد کے اس طوفان خیز موسم کے بعد آنے والا وقت موجودہ مرحلے سے بھی اہم ہے۔خوش آئندامر یہ ہے کہ ملک کی بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میثاق جمہوریت والی فضا میں سرگرم عمل ہوچکی ہیں،تحریک عدم اعتماد کے نتیجے سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ انتخابات کے تناظرمیں یہ دوبڑی جماعتیں دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ملکر ملک میں پائیدار جمہوریت کیلئے کیا روڈمیپ بناتی ہیں،بصورت دیگر اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچنے کیلئے جو حربے وہتھکنڈے ماضی میں استعمال ہوتے رہے ہیں وہ اب بھی حکومت واپوزیشن ہر دو کی جانب سے ہورہے ہیں ایسے عمل کے بعد تو ہم نےپھر کفن چور ہی دیکھے ہیں۔

یہ واضح ہے کہ جب تک پاکستان میں جمہوریت بےروح رہےگی ہر آنے والا کفن چور جانے والے کے گناہ بخشواتارہیگااور عوام یہ کہنے پرمجبور ہوں گے کہ اس سے تو وہ پہلے والا کفن چورہی بہترتھا جو کفن چوری کرتاتھا لاش کی بے حرمتی تو نہیں کرتاتھا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔