10 اپریل ، 2022
اصولاً تو اب وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ صدر مملکت کو بھی مستعفی ہوجانا چاہئے کیونکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے دونوں کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔ لیکن ایسا مہذب معاشروں میں ہوتا ہے۔ جہاں دونوں طرف اخلاقیات۔ تہذیب۔ تمدّن اور اقدار کا خیال رکھا جاتا ہے۔جہاں سارے ادارے ملک کے مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔مگر جہاں نہ تو قوم کا تصور ہونہ مملکت کا۔ اور نہ ہی ملک کے مفادات کا تعین کیا گیا ہو۔ وہاں آئین۔ اصول۔ قانون کی بجائے جس کی لاٹھی اس کی طاقت کے کلچر کی بالادستی ہوتی ہے۔
آج اتوار ہے۔ بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں سے افطار پر مل بیٹھنے کا دن۔ان کے ذہنوں میں تڑپتے سوالات کی پیاس بجھانے کے لمحات۔ پچھلا اتوار بھی بہت اہم تھا۔ عدالت عظمیٰ کے زبردست دبنگ فیصلے کے بعد آج کا اتوار پاکستان کی تاریخ میں اور اہم ہوگیا ہے۔ امید ہے آپ نے تیاری کرلی ہوگی۔ مستقبل کے پاکستانی Future Residents بہت سے ایسے سوالات کریں گے جو آپ کو لاجواب کردیں گے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نے پہلے سے موجود عوام میں تقسیم کو اور زیادہ واضح کردیا ہے۔ فیصلہ جن کے حق میں ہے وہ تو مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں۔ ان کے چہرے تمتمارہے ہیں۔ وہ امریکی سازش کو پہلے بھی نہیں مانتے تھے ۔
قوم واضح طور پر دو بلاکوں میں بٹ چکی ہے۔ ایک اس فیصلے کو جمہوریت کی سرخروئی قرار دے رہا ہے کیونکہ یہ ان کے موقف کے 100 فی صد حق میں ہے۔ دوسرا بلاک اسے بد قسمتی کہہ رہا ہے کیونکہ یہ ان کے اقدامات کو 100فی صد غیر آئینی کہہ رہا ہے۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ وہ ادارے جو ریاست اور مملکت کی علامت ہوتے ہیں وہ ہمارے ہاں 1950 کی دہائی میں مولوی تمیز الدین کیس اور 1958 کے مارشل لا سے متنازع چلے آرہے ہیں۔ یعنی 75 سال میں پہلی دہائی سے ہی ہمارے ہاں ریاست اور حکومت میں فرق واضح نہیں ہوسکا۔ عالمی اصول ہے حکومت سے غیر جانبدار تو ہوا جاسکتا ہے، ریاست سے نہیں۔ لیکن ریاست کے ستون جب خود قوم کو تقسیم کردینے والے والے اقدامات کرتے آرہے ہوں تو ریاست خود متنازع ہوتی رہتی ہے۔ ہزار کوشش کے باوجود پاکستان میں ریاست اپنا حقیقی تصوّر قائم نہیں کرسکی۔
دل سے پاکستان کو تسلیم نہ کرنے والے بھارت۔ افغانستان پاکستان کی ریاست کو متنازع قرار دلوانے کے لیے ہمیشہ کھلم کھلا سرگرم رہے ہیں۔ ریاست کے اداروں کے فیصلوں اور اقدامات نے پاکستان کے اندر بھی ایسے بیانیوں کو جنم دیا ہے ۔ کہیں علاقائی حوالے سے کہیں نسلی بنیادوں پر۔ کہیں لسانی اعتبار سے کہیں فرقہ پرستی کے لحاظ سے ریاستی ادارے تنقید کا ہدف بنے ہوئے ہیں۔
دیکھا جائے تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ایک دن کے لیے بحال کی گئی ہے۔ صرف جمعہ کا مبارک دن۔ ہفتے کو تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ ہورہا ہوگا۔ آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے، نتیجہ آچکا ہوگا۔ متحدہ اپوزیشن کے پاس مطلوبہ گنتی سے زیادہ ایم این اے موجود ہیں۔ وزیراعظم کی طرف سے اگر کوئی اور ’حیرت‘ نہیں آتی تو نئے وزیر اعظم کے لیے اعتماد کا ووٹ اور حلف برداری کی تاریخیں مقرر کی جارہی ہوں گی۔ متوقع وزیر اعظم شہباز شریف آئندہ حکومت کا دورانیہ سپریم کورٹ میں ڈیڑھ سال بتاچکے ہیں۔ یہ ڈیڑھ سال اتنا ہی مشکل ہوگا جتنا متحدہ اپوزیشن نے تحریک انصاف کی حکومت کے 3½سال کو بنائے رکھا۔ اس پورے عرصے میں انہوں نے کبھی اس حکومت کا حق حکمرانی تسلیم نہیں کیا۔اب تحریک انصاف کی بھی یہی کوشش ہوگی۔2013 سے 2018 کے درمیان تو ان کو اسٹیبلشمنٹ کی اشیرباد حاصل رہی تھی۔ اب پتہ نہیں ایسا ہوگا کہ نہیں۔
اس دَور نے یہ بھی ثابت کردیا کہ اداروں کے ایک صفحے پر ہونے سے بھی حکومتیں نہیں بچتی ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کی ملک میں اب ایک سیاسی حیثیت بن چکی ہے۔ اس نے صرف 3½سال حکومت کی ہے۔ متحدہ اپوزیشن میں پیپلز پارٹی۔ پاکستان مسلم لیگ(ن)۔ جمعیت علمائے اسلام۔ اے این پی۔ ایم کیو ایم۔ کئی کئی سال حکومت کرتی رہی ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے زخم خوردہ۔ اتنی بڑی تعداد میں نہیں ہوں گے۔ جتنے ان پارٹیوں کی حکومتوں کے ستائے ہوئے ملک میں موجود ہیں۔ پاکستان پر حکومت کرنا کبھی آسان نہیں رہا۔ پی ڈی ایم کی حکومت کے لیے اور بھی زیادہ مشکل ہوگا۔ تحریک انصاف کے اتحادی تو مسلم لیگ(ق) ۔ بلوچستان عوامی پارٹی۔ اور ایم کیو ایم تھے۔ پی ڈی ایم میں تو اتحادی زیادہ ہیں۔ ان میں مرکزی پارٹی پی پی پی بھی اپنے آپ کو سمجھے گی اور پاکستان مسلم لیگ(ن) بھی۔ انتخابی اصلاحات کو ترجیح دی جارہی ہے۔ جس کی مشاورت میں تحریک انصاف کو کبھی شامل نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح وہ اصلاحات بھی متفقہ نہیں ہوں گی۔ بلدیاتی انتخابات مزید موخر ہوں گے۔
پاکستان ہمیشہ سے امریکہ کا اتحادی رہا ہے ۔امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ کبھی برابری نہیں برتتا۔وہ اپنے آپ کو آقا اور چھوٹی قوموں کو غلام سمجھتا ہے۔ اس لیے پاکستان کے عوام میں نسل در نسل امریکہ کی مخالفت رہی ہے۔ امریکی پرچم جلائے جاتے رہے ہیں۔ جمہوریت۔ قومی آزادی کے لیے جتنے بڑے چھوٹے لیڈر قتل کیے گئے۔ ان کی ذمہ داری ہمیشہ امریکہ پر ڈالی گئی ہے۔ اُردو۔ سندھی۔ بلوچی۔ پنجابی خاص طور پر پشتو میں اس وقت امریکہ کے خلاف سینہ بہ سینہ گیت چلتے ہیں۔کشمیر کے مسئلے پر امریکہ نے کبھی پاکستان کے موقف کا ساتھ نہیں دیا۔ اس لیے اگر تحریک انصاف امریکہ مخالف بیانیہ لے کر چلتی ہے تو اسے پذیرائی ملے گی۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ملک میں بائیں بازو کے دانشور۔ ٹریڈ یونینسٹ۔ اس بیانیے میں اس کا ساتھ دیتے ہیں یا نہیں۔اب پاکستان تحریک انصاف پر کسی ادارے کا دبائو نہیں ہوگا کہ وہ کس کو ساتھ لے کر چلے۔ گرفتاریاں۔ عدالتوں میںپیشیاں بھی اس کا مقدر ہوں گی۔ عدالتوں سے انہیں اس طرح انصاف نہیں ملے گا جیسے گزشتہ 3½سال میں دوسری پارٹیوں کو ملتا رہا ہے۔
پاکستان کے غریب عوام کے لیے ایک اور مشکل دَور کا آغاز ہورہا ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے ایک ڈیڑھ کروڑ اور چلے گئے ہیں۔ قیادت کا بحران ہے۔پاکستان کے معاشرے کو آگے آنا ہوگا۔ یونیورسٹیاں، اساتذہ، طلبہ، قوم کو اور سیاستدانوں کو صحیح راستہ دکھاسکتے ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔