18 اپریل ، 2022
باپ وزیر اعظم تو بیٹا وزیر اعلیٰ پنجاب۔ شہباز شریف بھی خوش، حمزہ شہباز بھی خوش اور مسلم لیگ ن کے تمام رہنما بھی خوش۔ فیصلہ میاں نواز شریف نے کیا اور ساری جماعت نے سر تسلیم خم کر دیا۔ اگرچہ یہ سب کچھ جمہوریت کے نام پر ہوا لیکن یہ پاکستانی سیاست پر چند خاندانوں کی ڈکٹیٹرشب کی وہ حقیقت ہے جسے بحیثیت قوم ہم تسلیم کر چکے ہیں اور اسی لیے اسے بُرا نہیں جانتے۔
ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف)ہو یا ق لیگ ، عوامی نیشنل پارٹی یامتعدد دوسری سیاسی جماعتیں، ان کی پارٹی قیادت ہر حال میں ان سیاسی جماعتوں پر مسلط خاندانوں تک ہی محدود رہتی ہے۔یعنی طے ہے ن لیگ ہے تو قیادت شریف خاندان میں سے ہی ہو گی، پیپلز پارٹی ہے تو بھٹو زرداری خاندان ہی رہنما بننے کے قابل ہیں ، جے یو آئی (ف)، ق لیگ اور اے این پی کی اعلیٰ قیادت بھی مولانا فضل الرحمٰن خاندان، گجرات کے چوہدری اور ولی خان خاندان تک ہی محدود ہے۔ اسی لحاظ سے الیکشن جیتنے پر اعلیٰ ترین حکومتی عہدوں پر پہلا حق انہی خاندانوں کے افراد کا رہتا ہے۔ ہاں اگر ان خاندانوں کے علاوہ کسی دوسرے کو کوئی اعلیٰ عہدہ دینا ہے تو پھر ایک تویہ اُس فرد پر ان حکمران خاندانوں کا احسان اور مہربانی تصور ہو گی اور دوسرا ایسا وزیر اعظم ، وزیراعلیٰ یا کسی دوسرے اہم عہدے پر بیٹھا فرد جو کرے گا اپنی پارٹی قیادت یعنی حکمران خاندان کی مرضی اور منشا کے مطابق ہی کرے گا۔ یعنی اصل حکمرانی ان خاندانوں کے پاس ہی رہتی ہے۔ مثلاً جیسا کہ موجودہ سیاسی تبدیلی کے نتیجے میں ن لیگ کا وزیر اعظم بننا تھا تو شہباز شریف کو وزیر اعظم بنایا گیا۔
جب پنجاب کے چیف منسٹر کا سوال پیدا ہوا تو حمزہ شہباز کو یہ عہدہ دے دیا گیا۔ چلیں شہباز شریف اپنے تجربے اور کارکردگی کی بنیاد پر وزارت عظمیٰ کے لیے ایک مضبوط امیدوار تھے لیکن وزارتِ اعلیٰ پنجاب کے لیے حمزہ شہباز ہی کیوں؟ نہ صرف یہ کہ حمزہ شہباز کا حکومتی انتظامی امور کا کوئی تجربہ نہیں بلکہ یہ بات ہی بڑی معیوب لگتی ہے وزیر اعظم کے ہی بیٹے کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ بنا دیا جائے۔ کیا ن لیگ میں کوئی دوسرا سیاستدان ایسا نہیں تھا جسے پنجاب کا وزیر اعلیٰ لگایا جاتا۔
باعثِ مجبوری شریف خاندان سے باہر چند افراد کو ماضی میں اعلیٰ عہدے مہربانی کے طور پر ضرور دیے گئے اور یہی کچھ پیپلز پارٹی اور دوسری ایسی جماعتوں میں بھی ہوتا آیاہے لیکن پاکستان کی سیاست پر چند خاندانوں کی ڈکٹیٹرشپ نہ کمزور ہوئی اور ان سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے دوسری سطح کے رہنما چاہے وہ کتنے ہی تجربہ کار ، لائق فائق اور قربانیاں دینے والے کیوں نہ ہوں، سیاسی غلامی کی ہی زندگی گزارنے پر مجبور رہے ہیں۔ اُنہیں معلوم ہے کہ جو کچھ اُنہیں ملنا ہے وہ سیاست پر قابض ڈکٹیٹر خاندانوں کی مہربانی سے ہی ملنا ہے، اس لیے جو ملتا ہے ، وہ اسی پر خوش رہتے ہیں اور کسی صورت ان سیاسی خاندانوں کی سیاست پر اجارہ داری پر نہ سوال اُٹھاتے ہیں اور نہ ہی پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے حصول کے بارے میں سوچتے ہیں کیوں کہ اُنہیں معلوم ہے کہ اگر ایسی سوچ کی بھنک بھی پارٹی قیادت تک پہنچ گئی تو پھر اُن کا پارٹی میں کوئی مستقبل نہیں۔
مثلاً پیپلز پارٹی میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بغیر کسی تجربہ کے چھوٹی عمر میں ہی بلاول بھٹو پارٹی چیئرمین بنا دیے گئے جبکہ اس جماعت سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے نام بلاول کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہو گئے۔ یہی حال ن لیگ کا ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف کو چھوڑیں، کسی بڑے سے بڑے ن لیگی رہنما کی حمزہ شہباز، مریم نواز کے سامنے کوئی حیثیت نہیں۔ سب مریم اور حمزہ کے سامنے مودب کھڑے ہوتے ہیں کیوں کہ اُنہیں پتا ہے کہ وہ کچھ بھی کر لیں اُن کا کردار ثانوی ہی رہے گا۔ جماعت اسلامی جیسی کسی ایک آدھ پارٹی کو چھوڑ کر پاکستان میں کسی سیاسی جماعت میں جمہوریت کا کوئی نام ونشان نہیں۔
پی ٹی آئی میں موروثی سیاست تو ابھی نہیں لیکن عمران خان جو کہہ دیں وہی فائنل ہے۔ کسی بڑی سیاسی جماعت میں اعلیٰ پارٹی قیادت چننے کے لیے کبھی کوئی فیئر الیکشن نہیں کروایا جاتا اور عام سیاسی ورکرز اور سیاست دانوں کی صرف دوسرے درجے کی ہی سیاست تک رسائی ہوتی ہے۔ اس دوسرے درجے کی سیاست سے اوپر سوچنا اُن کے لیے ایسا گناہ اور جرم ہے جس کی کم از کم سزا سیاسی جماعت سے بے دخلی ہے۔ باقی شاہد خاقان عباسی ہوں، احسن اقبال، خواجہ آصف یا کوئی دوسرا ن لیگی اُنہوں نے نواز شہباز زندہ باد کے نعرے لگائے اور اب مریم حمزہ زندہ باد کے نعرے ہی لگائیں گے۔ یہی حال قائم علی شاہ ہوں، مراد علی شاہ، رضا ربانی ہوں، اعتزاز احسن یا کوئی دوسرا پی پی پی رہنما سب نے زرداری اور بلاول کے ہی نعرے لگانے ہیں اور یہ پاکستان کی سیاست کا وہ المیہ ہے جسے سب قبول کر چکے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔