عمران خان کو نکال کے کیا ملا؟

کس نے کہا تھا کہ عمران خان کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک لائیں؟ اب بھگتیں۔ تحریکِ انصاف کی حکومت کو اپنی ٹرم پوری کرنے دیتے تو حالات نسبتاً بہتر ہوتے۔ نجانے کل کیا ہوگا؟ معیشت کا کیا بنے گا؟ شہباز شریف اور اُن کے اتحادی سب کے سب پھنس گئے۔ کچھ کریں تو پھر بھی نقصان، کچھ نہ کریں تو پھر بھی نقصان۔

 آصف علی زرداری کی سیاست میں پی ایچ ڈی، نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کی سیاسی بصیرت سب فیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ عمران خان کی حکومت کی نااہلی، خراب طرزِ حکمرانی، معیشت کی خرابی سب کچھ پیچھے رہ گیا، اب سب سے زیادہ عمران خان کا نیا بیانیہ ہیبک رہا ہے۔ امریکا نے سازش کی یا یہ سب جھوٹ ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں رہی کیوں کہ عمران خان جو کہہ رہے ہیں، اُن کے چاہنے والے، ووٹرز اور وہ بھی جو اُن کی حکومت کی کارکردگی سے نالاں تھے، خفا تھے، سب کے لیے جو خان نے کہا، وہی سچ ہے۔ 

جنہوں نے عمران خان کو نکالا وہ سب چند ہفتوں ہی میں اپنے آپ کو دیوار کے ساتھ لگا محسوس کر رہے ہیں۔ عمران خان حکومت کے معاشی فیصلوں نے بلاشبہ ملکی معیشت کے لیے سنگین خطرات پیدا کیے لیکن ان حالات کو ٹھیک کرنے کی ذمہ داری شہباز شریف حکومت اور ان کے اتحادیوں کی ہے جنہوں نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کی غلطی کی۔

 اب جو خراب ہو گا اُس کی ساری ذمہ داری اتحادیوں پر بالعموم اور ن لیگ پر بالخصوص ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف صاحب اپنے چند ن لیگی رہنماؤں کے ساتھ لندن چلے گئے تاکہ میاں نواز شریف سے ملاقات کر کے رہنمائی لیں کہ کیا آگے کیا کرنا ہے؟ فوری مشکل یہ آپڑی کہ پیٹرول اور ڈیزل 40روپے اور 75روپے فی لیٹر مہنگا کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ اگر پٹرول ڈیزل مہنگا کر دیا اور سبسڈی ختم کر دی تو مہنگائی کا طوفان آئے گا جو موجودہ حکومت کو ہی بہا لے جائے گا۔

 ن لیگ اور اتحادیوں کو عوامی ردِعمل کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ عمران خان کو موجودہ حکومت کے خلاف عوام کے جذبات ابھارنے کا ایک اور موقع مل جائے گا۔ اگر موجودہ حکومت اور اتحادی فیصلہ کرتے ہیں کہ پیٹرول اور ڈیزل مہنگا نہیں کرنا تو پھر آئی ایم ایف پاکستان کو قرضہ نہیں دے گا جس کے نتیجہ میں دوست ممالک سے بھی قرضے اور معاشی رعایتیں ملنے کا کوئی چانس نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان ڈیفالٹ ہونے کی طرف چل پڑے گا جس کے بارے میں سوچ کر ہی ڈر لگتا ہے۔

 یہ سارا معاملہ اب پاکستان کی معیشت اور پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ن لیگ کیا فیصلہ کرے گی لیکن میری ذاتی رائے میں بہتر یہی ہوگا کہ وزیراعظم شہباز شریف جن کی اپنی حکومت درجن بھر اتحادیوں کے کمزار سہارے پر چل رہی ہے، اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کریں تاکہ ملک نئے الیکشن کی طرف جا سکے۔ 

نئے الیکشن اگر اکتوبر میں بھی ہوں تو پھر بھی موجودہ حکومت کیلئے موجودہ سیاسی ماحول اور معاشی میدان میں بڑے اور ناپسندیدہ فیصلوں کے باوجود چلنا مشکل ہے کیوں کہ سیاسی اور معاشی عدم استحکام ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھے گا۔ اگر الیکشن کمیشن اگست میں الیکشن نہیں کرا سکتا تو سپریم کورٹ کو فیصلہ کرنے دیں کہ کیا دو مہینے کی مہلت نگران حکومت کی بڑھائی جا سکتی ہے کہ نہیں؟

 میں تو تجویز پیش کروں گا کہ شہباز شریف فوری قومی اسمبلی تحلیل کریں۔ نگران وزیراعظم کے لیے اچھی شہرت کے مالک کسی معاشی ماہر جیسا کہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کو چنا جائے جن کا مکمل فوکس پاکستان کی معیشت ہو جس کے لیے وہ مشکل آسان سب فیصلے کر سکیں۔ یہ عمران خان کو بھی قابلِ قبول ہو گا اور یہ حل موجودہ سیاسی اتحاد کے لیے بھی موزوں ہو گا۔ یعنی موجودہ حکومت چلی جائے اور نگران حکومت جلد از جلد الیکشن کے انعقاد تک معیشت پر دھیان دے۔

 اس وقت جو حالات پیدا ہو چکے ہیں اُن میں پاکستان کے مفاد کو سب سے آگے رکھنے کی ضرورت ہے۔ ایسا ہو گا کہ نہیں میں کوئی زیادہ پر امید نہیں لیکن کاش ہمارے سیاستدان آپس میں مل بیٹھ کر نئے الیکشن اور معیشت کے فوری خطرے کے بارے میں کوئی متفقہ فیصلہ کریں۔ میرا خیال ہے کہ اس بارے میں عمران خان سب سے بڑی رکاوٹ ہیں لیکن میری مقتدر حلقوں سے درخواست ہے کہ بغیر چھپے، سب کے سامنے کم از کم عمران خان سمیت ان سیاستدانوں کو ایک ٹیبل پر بٹھائیں۔

 ایک طرف اگرعمران خان کو حالات کو مزید خرابی کی طرف لیجانے سے احتیاط کرنی چاہیے تو دوسری طرف موجودہ حکومت، اُس کے اتحادیوں اور اداروں کو مل کر ملکی معیشت کو بچانے کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہاں کوئی نیوٹرل نہیں رہ سکتا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔