21 مئی ، 2022
گذشتہ چند روز سے ڈیرہ بگٹی کا علاقہ 'پیرکوہ' قومی میڈیا میں بہت زیادہ خبروں میں ہے، یہ کہنے اور بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ خبریں منفی حوالے سے ہیں اور وہ حوالہ ہے اس علاقے میں پھوٹنے والی ہیضے / گیسٹرو اور اسہال کی وباء جس سے اس علاقے کے رہنے والے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
اس سے پہلے پیر کوہ کا قومی میڈیا میں اس حد تک چرچا رہاہے کہ یہ علاقہ قدرتی گیس کے ذخائر سے بھرپور ہے اور اسی وجہ سے اس کا شمار ملک کی اہم ترین گیس فیلڈز میں ہوتا رہا ہے۔
پیرکوہ گیس فیلڈ آئل اینڈ گیس ڈولپمنٹ کمپنی او جی ڈی سی ایل آپریٹ کرتی ہے۔پیرکوہ گیس فیلڈ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس گیس فیلڈ سے قدرتی گیس کی پیداوار کا سلسلہ 60 کی دہائی میں شروع ہوا۔
1995 میں قدرتی گیس کی پیداوار 180 ایم ایم سی ایف ڈی تک پہنچ گئی تھی اور یہاں سے پیدا ہونے والی گیس سے ملک بھر کے گھریلو اور کمرشل صارفین مستفید ہوتے رہے ہیں۔
ڈیرہ بگٹی کی سب تحصیل پیر کوہ کا یہ مختصر پس منظر بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ قدرتی گیس کے ذخائر سے مالا مال ہونے کے باوجود یہ علاقہ زندگی کی بنیادی سہولیات سے بہت حد تک محروم رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ زندگی کی بنیادی ضرورت پینے کا صاف پانی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے پیرکوہ کا یہ علاقہ آج کل کسماپرسی کی تصویر بنا ہوا ہے اور یہاں ہیضے کی وباء کی صورت میں ایک انسانی مسئلے نہ بھی جنم لے لیاہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پیرکوہ میں 13 اپریل سے 19 مئی تک ہیضے اور اسہال و گیسٹرو کے 3335 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں ، جن میں سے 276 صرف اسی روز یعنی 19 مئی کو رپورٹ ہوئے اور ان میں سے اس وباء کے 451 ریکارڈ کیسز 13 مئی کو رپورٹ ہوئے تھے۔ہیضے کی وباء سے متاثرہ مریضوں میں زیادہ تر تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
پیرکوہ میں ہیضے کی وباء کے پھوٹنے کا صرف ایک ہی سبب ، پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی اور اس کے نتیجے میں آلودہ پانی کا استعمال ہے۔ علاقے میں پینے کا صاف پانی ناپید ہوا اور لوگ تالابوں کا آلودہ پانی پینے پر مجبور ہوئے تو وہاں رہنے والے سیکڑوں لوگ ہیضے اور گیسٹرو کی وباء سے متاثر ہوگئے۔
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق تو تقریباً ایک ماہ کے دوران 19 مئی تک ہیضے کے 3335 کیسز رپورٹ ہوئے اور اس سے 8 اموات ہوئیں، مگر آزاد مقامی ذرائع کے مطابق اس وباء سے متاثرہ افراد کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔
بہرحال، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اگر سرکاری اعدادو شمار کو ہی حقیقت مان لیا جائے تو 2017 کی مردم شماری کے مطابق پیرکوہ کی 40 ہزار 629 کی آبادی میں سے تقریباً 8 فیصد آبادی ہیضے کی وباء سے متاثر ہوچکی ہے اور زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ برملا کہا جاسکتا ہے کہ ابھی یہ سلسلہ رکا نہیں ہے آئندہ دنوں میں ہیضے کی وباء سے متاثرہ ہونے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔
پیرکوہ میں ہیضے کی وباء کے پھوٹنے کی وجوہات کے حوالے سے ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر ڈیرہ بگٹی ڈاکٹر محمد اعظم بگٹی کے مطابق پیرکوہ کو پانی کی سپلائی کے لیے او جی ڈی سی ایل کی جانب سے 32 سال قبل 12 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھائی گئی تھی جس کی نہ تو کبھی مرمت کی گئی اور نہ ہی اسے تبدیل کیا گیا جس کی وجہ سے پائپ لائن بوسیدہ،زنگ آلود اور خستہ حال ہوگئی اور آلودہ پانی کا سبب بنی، یہی نہیں علاقے میں آلودہ پانی کے تالابوں سے پینے کے پانی کا استعمال بھی اس وباء کے پھوٹنے کی بڑی وجہ بنا، ان تالابوں سے انسانوں کے ساتھ جانور بھی پانی پیتے رہے۔
علاقے میں ہیضے کی وباء پھوٹنے کے بعد ضلعی انتظامیہ نے او جی ڈی سی ایل کی پائپ لائن سے پیرکوہ کو پانی کی سپلائی تو بند کردی مگر مقامی لوگوں کے تالابوں سے پینے کے پانی کے استعمال کا سلسلہ جاری رہا۔
ہیضے کی وباء پھوٹنے کے بعد پیرکوہ میں ہیلتھ ایمرجینسی نافذ کردی گئی ہے، وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کے نوٹس لیے جانے کے بعد ڈیرہ بگٹی سے روزانہ کی بنیاد پر محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی جانب سے ٹینکروں کے ذریعے پانی پہنچایا جا رہا ہے جبکہ واٹر سپلائی اسکیموں کی بحالی کے لیے بھی کام شروع ہوگیا ہے۔
تاہم اب بھی ہیضے کی وباء کی صورتحال یہ ہے کہ پیرکوہ میں واقع سرکاری اسپتال اور طبی کیمپوں میں وباء سے متاثرہ افراد کی کثرت کی وجہ سے تل دھرنے کو جگہ نہیں ہے۔
اس کے باوجود ڈپٹی کمشنر ڈیرہ بگٹی ممتاز کھیتران کا جیو نیوز سے بات چیت میں دعویٰ تھا کہ ضلع میں ہیضے کی وبا پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا ہے، اسپتالوں میں ہیضے کے 30 سے 40 مریض داخل ہیں جبکہ دیگر کو ڈسچار ج کردیا گیا ہے اور ہیضہ کی وباء سے اسپتالوں میں6 اموات ہوئی ہیں ۔تاہم گھروں میں ہونے والی اموات کے اعدادوشمار حاصل کرنے کیلئے سروے جلد شروع کیا جائے گا۔
ڈی ایچ او ڈیرہ بگٹی کے مطابق پیر کوہ میں ہیضے کی وباء کو کنڑول کرنے کیلئے کوئٹہ سے آنے والے ماہر ڈاکٹروں کی 15 رکنی ٹیم نے کام شروع کردیا ہے جبکہ ایک لیبارٹری بھی قائم کردی گئی ہے ،جس میں تمام ٹیسٹ کیے جارہے ہیں ۔
ممتاز کھیتران نے بتایا کہ پیر کوہ کے شہریوں کو روزانہ 6 لاکھ لیٹر صاف پانی مہیا کیا جار ہا ہے جبکہ جانوروں کو پانی دینے کیلئے پیرکوہ میں پانی کے ذرائع کو صاف کردیا گیا ہے۔
ڈپٹی کمشنرڈیرہ بگٹی نے مزید بتایا کہ ہیضے سے جاں بحق افراد کے لواحقین کو مالی معاوضہ دیا جائےگا۔
صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ کے ہیضے کی وباء کے کنٹرول کیے جانے کے حوالے سے دعوے اپنی جگہ مگر زمینی حقائق کو دیکھ کر اندازہ یہی ہوتا ہے کہ پیرکوہ میں اس وباء پر تاحال کنٹرول ممکن نہیں ہوسکا ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس علاقے کے علاوہ کوئٹہ میں بھی علاقہ مکینوں کی جانب سے بھرپور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔
پیرکوہ کے علاوہ گذشتہ دنوں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وہاں سے تعلق رکھنے والے افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں انہوں نے ارباب اختیار و اقتدار کی فوری توجہ اپنے علاقے میں پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی کی جانب دلائی جس کی وجہ سے وہاں کے لوگ شدید متاثر ہو رہےہیں۔
ان کا یہی دعویٰ تھا کہ سرکاری اعدادو شمار کے برعکس پیرکوہ میں ہیضے کی وباء سے بڑی آبادی متاثر ہوئی ہے، ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ ان کے علاقے میں پینے کے صاف پانی کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے۔