26 مئی ، 2022
دفعہ144، کنٹینروں کی پکڑ دھکڑ، دریاؤں کے پل بند، حکومت ڈالر کی قدر نیچے لانے کی بجائے ان پابندیوں پر مجبور ہے۔
پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین اقتصادی بحران سے دوچار ہے۔ وقت کا تقاضا تو یہ تھا کہ حکومت ملک کے قابل ترین ماہرینِ اقتصادیات اور کرنسی ڈیلرز کے ساتھ مل بیٹھ کر روپے کو سہارا دے رہی ہوتی۔ پہلے اتنے بڑے بڑے جلسے ہوئے ہیں۔ شہر در شہر ہزاروں کارکنوں، خاندانوں کی نقل و حرکت ہوئی ہے۔ کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا ہے۔ اب اگر کچھ لاکھ پُرامن طریقے سے اسلام آباد پہنچ بھی جاتے ہیں تو اس سے کاروبارِ حیات پر کیا فرق پڑے گا؟
ان سے کہتے ہیں کہ چلو آؤگھروں سے نکلو
ہم سے کہتے ہیں نکلنے نہیں دینا ان کو
مشکل یہ ہے کہ میں یہ کالم جب لکھ رہا ہوں تو ابھی حقیقی آزادی کے لیے لانگ مارچ کا حقیقی وقت نہیں ہوا ہے۔ آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو آپ مجھ سے زیادہ باخبر ہوں گے۔ لانگ مارچ کہاں پہنچا ہے۔ کس حیثیت میں ہے۔ آپ کو تازہ ترین اطلاعات میسر ہوں گی۔ خیر مجھے آج لانگ مارچ پر بات نہیں کرنا ہے۔ اس کے نتائج حکومت کی پالیسیوں، اپوزیشن کے اقدامات اور مقتدر قوتوں کے رویے پر منحصر ہیں۔
آپ اور میں حکومت میں ہیں نہ اپوزیشن میں۔ اور نہ ہی مقتدرہ سے ہمارا کوئی واسطہ ہے۔ مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ غیر ضروری اشیا اور تعیشات کی درآمد پر پابندی موجودہ حکومت کا بہت ہی صائب اقدام ہے لیکن اس کے ساتھ ہی جو ایک ترغیبی مہم ناگزیر تھی۔ وہ شروع نہیں کی گئی ہے۔ اور نہ ہی اس کی کہیں سن گن ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ اقدام ایک مجبوری کے تحت کیا گیا ہے۔ اس کے لیے عوام کو جذباتی طور پر آمادہ کرنا ضروری نہیں سمجھا جارہا ہے۔ یہ جتنی چیزیں ممنوعہ قرار دی گئی ہیں اُن کے بغیر زندگی آرام سے گزر سکتی ہے۔
ہم تو پہلے ہی لکھتے آئے ہیں کہ ملک میں ایک طرف کروڑوں لوگ ایسے ہیں جو اپنا گھر بنانے کے لیے چند لاکھ کا انتظام نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف ہزاروں ایسے ہیں جو کئی کئی کروڑ کے ڈالے لے کر سڑکوں پر دندنا رہے ہیں۔ ملک کا زر مبادلہ ایسی گاڑیوں پر خرچ نہیں ہونا چاہئے۔ کسی کی گھڑی کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ کتنے کروڑ کی ہے۔ ایک غریب، مقروض قوم میں ایسے اللّوں تللّوں کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ پاکستان میں ایسا رہن سہن اختیار نہیں کیا گیا جو ایک غریب ملک کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ حقیقی آزادی دیسی مصنوعات کے استعمال سے ملتی ہے۔ جب آپ کسی بھی غیر ملک دوست یا اجنبی سے غیر ضروری اشیا درآمد کرتے ہیں تو آپ اپنی آزادی کو گروی رکھنا شروع کردیتے ہیں۔ قوم کے لیڈر اس کا رول ماڈل ہوتے ہیں مگر ہم ان لیڈروں کے غلام اس امر پر فخر کرتے ہیں کہ ہمارے لیڈر کی املاک کا اندازہ ہی نہیں ہے۔
اب وقت للکار رہا ہے۔ ڈالر کے بوجھ تلے دبتا پستا پاکستانی روپیہ فریاد کررہا ہے کہ اب تو ہم سنبھل جائیں۔ سری لنکا کی طرف دیکھیں۔ زمانہ کہہ رہا ہے کہ اپنے ملک کے وسائل کو بروئے کار لائو۔ اپنی مصنوعات استعمال کرو۔ اجنبی ملکوں کی منڈی بننے کی بجائے اپنے مال سے زندگی گزارو۔ اپنی مصنوعات بنانے والے کارخانے منہدم کرکے ان کی جگہ شاپنگ پلازہ نہ بنائو۔ جنہیں غیرملکی مال سے بھرنا پڑتا ہے۔ خواتین بھی بچوں میں بھی اپنے برانڈز کے استعمال کی ترغیب دیں۔ اس وقت جن مشکلات کا سامنا ہے۔ پیٹرول، گیس، ڈیزل جتنے نایاب اور قیمتی ہورہے ہیں یہ اور زیادہ بوجھ بنیں گے۔ لیڈروں کو بھی چاہئے کہ قوم کے سامنے اپنی مصنوعات پہن کر آئیں۔ اپنے ملک میں تیار کردہ گاڑیوں میں نکلیں۔ اس لانگ مارچ میں بھی دیکھ لیں کہ کیسی بڑی بڑی قیمتی گاڑیوں میں حقیقی آزادی کا نعرہ لگانے والے آرہے ہیں۔ جن غیرملکوں سے حقیقی آزادی کا نعرہ لگارہے ہیں ان کی مصنوعات میں زندگی گزار رہے ہیں۔
لانگ مارچ والے بھی پُرتعیش گاڑیوں میں، ان کا راستہ روکنے والی پولیس کے پاس بھی درآمد شدہ گاڑیاں، حقیقی آزادی کے حصول کا جہاد بہت نیک جذبہ ہے لیکن اس جہاد کے جو تقاضے ہیں وہ پورے کریں گے تو حقیقی آزادی ملے گی۔ غیرملکی قرضے جو کئی ہزار ارب تک جا پہنچے ہیں وہ بھی اپنی مصنوعات کی برآمد سے ہی اتریں گے۔ اپنے قدرتی معدنی وسائل کو دریافت کرنے سے ان کے اندر چھپے سونے، تانبے اور دیگر قیمتی دھاتوں کی دریافت۔ پھر ان کے لیے ریفائنریاں لگانے سے حقیقی آزادی ملے گی۔
1988کے بعد سے خود کفالت، خود انحصاری کسی سیاسی پارٹی، ادارے، یونیورسٹی کی لغت میں ہی شامل نہیں رہی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کتنی زرخیز زمینیں دی ہیں۔ سرسبز کوہسار بھی اور بنجر خشک پہاڑ بھی۔ 200میل سے زیادہ پھیلا ہوا سمندر بھی۔ خود کفالت کے لیے ہماری یونیورسٹیوں میں ایم بی اے کے ساتھ ساتھ جیالوجی پر بھی زور ہونا چاہئے۔ ایک ایم بی اے یا ایم ایس سی جیالوجی کا کردیں۔ خدائے بزرگ و برتر نے جس طرح ہمیں جفاکش ہم وطن دیے ہیں اسی طرح ہر قسم کی ارضی ہیئت، ریگ زاروں، صحرائوں، پہاڑوں، چٹانوں، دریائوں، دو آبوں، بیلوں، کیٹیوں، جنگلوںِ میدانوں میں ہمارا رزق، ہماری دولت عطا کی ہے۔ ہم ان کے محقق، ان کے ماہرین پیدا کریں۔ ہم اپنی خوشحالی کے لیے ریکوڈک، سیندک، ڈھوڈک کو دیکھیں۔ واشنگٹن کو نہیں۔ ہمارے جفاکش سمندر پار پاکستانیوں نے برطانیہ، کینیڈا، خلیج اور امریکہ کے کتنے شہر آباد کیے ہیں۔ ہم اپنی آٹھ دس ہزار برس پرانی تہذیب اور شائستگی کے حامل شہروں کو آج کی ٹیکنالوجی سے ہمکنار کرکے جدید ترین اقتصادی مراکز بنا سکتے ہیں۔
پاکستان کا مقدر بربادی نہیں خوشحالی ہے۔ بلوچستان میں ہمارا خوشحال مستقبل پنہاں ہے۔ یہاں کے نوجوانوں کو لاپتہ نہیں، انہیں بااعتماد اور باصلاحیت بنائیں۔ ان کے ذہن میں ہمارے مستقبل کی چابیاں ہیں۔ جنوبی پنجاب، گلگت بلتستان، قبائلی علاقوں، آزاد جموں کشمیر، تھر کے صحرائوں میں مستقبل کی چمک دمک ہے۔ امپورٹڈ اشیا پر پابندی لائقِ تحسین، امپورٹڈ حکومت نا منظور کے ساتھ ساتھ امپورٹڈ خوشحالی نامنظور کریں۔ ٹرینڈ بنائیں۔ ہماری زندگی درآمد شدہ پانی، مشروبات، مکھن، گاڑیوں کے بغیر بہت مستحکم گزر سکتی ہے۔ ہماری کپاس بہت خوبصورت لباس دے سکتی ہے۔ ہماری زمینیں گندم، چاول، گنا، مکئی اور سبزیاں پھل پیدا کر سکتی ہیں۔ ہماری ضرورت بھی پوری کریں گی اور دنیا کی بھی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔