لوگ عمران سے بھی آگے نکل گئے

’’میں آج گھر سے نہ نکلتی تو اس کی قیمت میری نسلیں ادا کرتی رہتیں‘‘۔ایک نوجوان ماں آدھی رات کے وقت اپنی ایک ماہ کی بچی کو گود میں لیے قائد اعظم کے مزار کے باہر فٹ پاتھ پر بیٹھی یہ لازوال جملہ ادا کررہی ہے۔ دوسرے بازو سے اس نے ایک سالہ بیٹے کو سنبھالا ہوا ہے۔

۔۔۔

یہ منظر میرے ذہن کی دیوار پر نقش ہوگیا ہے۔ پیغام نسل در نسل پہنچ گیا ہے۔ میں اپنے مستقبل کو اس ماں کی شکل میں محفوظ دیکھ رہا ہوں۔جو کچھ بھی ہمارے ارد گرد ہورہا ہے۔ اس کا ادراک اندر کے بغض کو نکالے بغیر بہت مشکل ہے۔ معاشرے تقسیم ہوتے ہیں اور افراد اپنی آنکھوں سے نہیں، اپنے قبیلے کے سردار۔ برادری کے بڑے۔ سیاسی جماعت کے سربراہ۔ مذہبی تنظیم کے قائد۔ فرقے کے رہبر کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے حقیقت ان تک نہیں پہنچتی۔بدھ کو رات گئے جمعرات کی صبح تک جو کچھ بھی دیکھنے کو ملا۔ وہ تاریخ کے ایک اہم موڑ کے شواہد ہیں۔ جو ہمارے جغرافیے پر بھی اثر انداز ہوں گے۔ ہماری معاشرت پر بھی۔ یہ ایک عالمگیر وبا۔ سوشل میڈیا کی فراوانی۔ اور یکے بعد دیگرے ناکام حکمرانیاں دیکھنے والی مختلف نسلوں کے مشترکہ محسوسات ہیں۔ جلسے جلوس۔ ریلیاں۔ مزاحمت۔ راستے کی رکاوٹیں دور کرنے کی جدو جہد واضح طور پر یہ بتارہی ہے کہ پاکستانی نوجوان ہمارے لیڈروں سے آگے نکل گئے ہیں۔

۔۔۔۔

آج اتوار ہے۔ اپنی آئندہ نسلوں سے ملنے۔ ان سے مکالمے کا دن۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آج ان کے سوالات ان دنوں کے واقعات کے حوالے سے نہ ہوں۔ آپ ذرا اپنے دل کو ٹٹولیں۔ آپ تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں کی جرح کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں کیا؟

۔۔۔۔

یہ ایک خلفشار ہے۔ مگر اس میں بھی ایک ترتیب ہے۔ میں تو اتنے ہزاروں نوجوانوں، خاندانوں کو آنسو گیس کی بوچھاڑ۔ لاٹھی بردار پولیس کی دہشت۔ بے وردی ڈنڈہ بدستوں کے باوجود حرکت میں دیکھ ۔ آنکھیں بند کرکے دوسرے موضوعات پر قلم اٹھانے میں نہیں لگ سکتا۔میں نے پہلے بھی 90-80-70-60 کی دہائیوں میں ایسے ابھار اور ابال دیکھے ہیں،جو اس وقت کے طالع آزمائوں۔ غاصبوں۔ جرائم پیشہ مافیائوں کے جبر کے خلاف ناگزیر تھے۔ بہت سے مصلحت کوش اس وقت بھی یہی جملے ادا کرتے تھے جو آج اس ابھار کے خلاف استعمال ہورہے ہیں۔ ان دنوں جو ذی شعور اس ابھار کی قیادت کی کوشش کرتے تھے ان کے بارے میں بھی اسی طرح کی زبان استعمال کی جاتی تھی۔ مگر تاریخ بہت بے لوث ہے۔ اسے کسی پارٹی کسی فرد سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ ان دنوں ابھار کی علامت بننے والے آج لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ جن قوتوں کے مقابل وہ ڈٹ کر کھڑے تھے، ان کو آج کوئی اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرتا۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ عوام ہمیشہ وقت سے مقابلے کی دوڑ میں آگے نکل جاتے ہیں۔ لیڈر پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ان کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ مقتدر قوتوں سے رابطوں میں مصلحت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سنہری مواقع وقت کی بھول بھلیوں میں گم ہوجاتے ہیں۔ قیادت کا دعویٰ اپنی جگہ لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ قائد ہر نسل کا مزاج سمجھ سکے۔ ہر قائد قائد اعظم تو نہیں ہوتا۔

آپ مانیں یا نہ مانیں۔ ایک فصل کاشت ہورہی ہے۔ مزاحمت کے بیج کونپلیں بن رہے ہیں۔ آسمان دیکھ رہا ہے کہ اس کشت کو سیراب کون کررہا ہے؟ کونسا سورج اسے دھوپ دے کر پکار ہا ہے؟ دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ کے خلاف میدان میں نکلنا کتنے خطرات کو دعوت دینا ہے۔ امریکہ تو ضرور جانچ رہا ہوگا کہ اس کے خلاف نفرت پھیل رہی ہے۔ روس اور چین سے محبت بڑھ رہی ہے۔لینن یاد آتا ہے۔ کیا ابدی جملہ کہا تھا:’’ بہت سے عشرے ایسے ہوتے ہیں جب کچھ نہیں ہوتا اور بہت سے ہفتے ایسے ہوتے ہیں۔ جن میں عشرے رُونما ہوجاتے ہیں‘‘۔یہ ہفتے ایسے ہی گزر رہے ہیں، جن میں ہر روز عشرے واقع ہورہے ہیں۔یہ جو کچھ ہورہا ہے یہ صرف اس ملک اس خطّے تک محدود نہیں ہے۔ کائنات کی طنابیں کھنچی ہوئی ہیں۔ آمروں۔ غاصبوں۔ ابن الوقتوں کے خلاف انسان اپنے سوز دروں کا اظہار سوشل میڈیا پر کھل کر کررہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی انسان کی سب سے بڑی طاقت بن رہی ہے۔ لیڈر، حکومتیں بے معنی ہورہے ہیں۔ بے چارے ڈنڈہ بردار تو غلام ہیں۔ بڑے بڑے افسر بھی ماسک صرف ناک اور منہ پر نہیں آنکھوں پر بھی باندھ لیتے ہیں۔

پاکستانیوں کی آنکھوں میں یہ برہمی۔ یہ اضطراب۔ ماتھوں پر تمتماہٹ کسی ایک لیڈر کی شعلہ بیانی کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ 40 سال سے ملک کے وسائل پر قبضہ کرنے۔ اپنی جائیدادیں۔ بینک بیلنس بڑھانے اور غریبی کی لکیر سے کروڑوں کو نیچے دھکیلنے والوں کے خلاف ہے۔ نوجوانوں کو باہر نکالنے والے وہ بھی محتاط ہوگئے ہیں۔ وہ بھی لمحے کو اپنی گرفت میں لینے سے ہچکچارہے ہیں کیونکہ ان کے پاس بھی اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے متحرک اور باشعور ٹیم نہیں ہے۔

 اس تاریخ ساز لمحے کو سمجھنے کیلئے جس مطالعے اور فکر کی ضرورت ہے وہ ان کے پاس نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف سمیت ہر قیادت کی دعویدار ہر پارٹی کو اپنی تنظیم از سر نو کرنا ہوگی۔ ہر ایک کو ایک دانش کدہ تعمیر کرنا ہوگا۔ اور صرف فوری الیکشن کا نہیں۔ آئندہ دس پندرہ سال کے مقامی۔ علاقائی اور عالمی امکانات پر مبنی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ سوشل میڈیا پر بہت تجاویز آرہی ہیں۔ سوشل میڈیا بڑے میڈیا سے آگے نکل رہا ہے۔ لوگ بھی بہت آگے پہنچ رہے ہیں۔ لیڈروں میں سب سے آگے رہنے والا عمران خان بھی پیچھے رہ گیا ہے۔

وقت کی للکار جو بھی سنے گا۔ وہ تاریخ میں زندہ رہے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔