02 جون ، 2022
سیاسی پارٹیوں کی نظریں پھر غیرسیاسی اداروں کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ وقت کی آنکھیں سیاسی پارٹیوں پر جمی ہیں۔ سب سیاسی معاملات میں غیرسیاسی قوتوں کی مداخلت پسند نہیں کرتے مگر اس وقت سب کسی نہ کسی طرح چاہتے ہیں کہ ادارے ان کی مدد کو آئیں۔ سیاسی قائدین کے ذہن شل ہو چکے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے ٹکرا ٹکرا کر اپنی جسمانی، تنظیمی، دماغی توانائی کھو چکے ہیں۔
لانگ مارچ، وجوہ کچھ بھی ہوں، فی الحال اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکا۔ لوگوں میں بیداری پھیلی ہے۔ شعور متحرک ہوا ہے مگر اقتصادی بدحالی ہر فرد کو بےحال کررہی ہے۔ معیشت کا بحران گوادر سے واہگہ تک چاروں صوبوں کو لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ آزاد جموں کشمیر، گلگت بلتستان کی اکائیوں میں بھی یہی حال ہے۔ آٹے کی قلت کی آوازیں بھی آرہی ہیں۔ مقدمات پر مقدمات قائم ہو رہے ہیں۔ خاموش اکثریت نے بولنے کے لیے لب کھولے تھے مگر طاقت کے سفاکانہ استعمال سے پھر لب سل گئے ہیں۔
زندگی کی آسانیاں پہلے بھی بہت کم تھیں۔ اب پاکستانی روپے کی عاجزی نے جینا اور دوبھر کردیا ہے۔ پیٹرول کی قیمتوں میں یکمشت 30روپے کے اضافے نے ایک بڑی آبادی کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا ہوگا۔ ایسے انتشار میں فوری الیکشن ایک راستہ ضرور ہوتا ہے۔ اوّل تو موجودہ اتحادی اپنی حکمرانی کے مزے مختصر نہیں کرنا چاہتے۔ اگر کسی دباؤ میں ایسا ہو بھی جائے تب بھی اس عمل میں کئی ماہ لگ جائیں گے۔
الیکشن فوری ہوں یا دیر سے، یا یہ آدھی اسمبلی اپنی مدت پوری کرکے اگست 2023میں الیکشن کروائے۔ اس وقت ہر سیاسی پارٹی کے لیے ایک سنہری موقع ہے کہ وہ بہتر حکمرانی کے لیے اپنی بہترین صلاحیتیں استعمال کرکے اپنے اپنے حلقۂ حکومت میں عوام کی مشکلات دور کرے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ لوگوں کے ذہن صیقل ہورہے ہیں۔ انٹرنیٹ ان کی معلومات میں اضافہ کررہا ہے۔ ملکوں میں تبدیلی مڈل کلاس لاتی ہے۔
پاکستان میں بھی مڈل کلاس کچھ طاقت ور ہو رہی ہے۔ واٹس ایپ گروپوں، ٹوئٹراور فیس بک صفحات سے بلوچستان، کے پی، سندھ، پنجاب، جنوبی پنجاب، گلگت بلتستان اور آزاد جموں کشمیر کی مڈل کلاس آپس میں مربوط بھی ہے۔ اس نئے ابھار سے خوف زدہ ہونے کی بجائے قومی سیاسی جماعتوں کو اس بیداری کو اپنی طاقت خیال کرنا چاہئے۔ غیرسیاسی قوتوں سے مدد مانگنے کی عادت چھوڑ کر عوامی حلقوں پر انحصار کریں۔
تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے پاس اپنی انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے لیے باقاعدہ حکومتیں بھی ہیں۔ مسلم لیگ ن، پی پی پی کے پاس تو وفاق بھی ہے اور دونوں بڑے صوبے بھی۔ وفاق میں وہ مشترکہ ہیں۔ سب سے بڑا صوبہ پنجاب فی الحال ن لیگ کی قیادت میں ہے۔ بیٹا وزیراعلیٰ ہے تو مرکز میں والد وزیراعظم۔ اس سے زیادہ سنہری موقع کیا ہو سکتا ہے کہ پنجاب میں عام آدمی کو زیادہ سے زیادہ راحت دینے کے لیے وفاق کی مدد سے تیز رفتاری سے پالیسیاں لائی جائیں۔
اپنے مقدمات کے خاتمے کے لیے کوششیں تو فطری ہیں، انہیں یقیناً ترجیح بھی ہوگی لیکن وقت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ عام پاکستانیوں کے لیے باعزت روزگار، زندگی کی سہولتیں، اچھی ٹرانسپورٹ، علاج معالجے کے انتظامات فراہم کیے جائیں۔ پی پی پی کے پاس 15سال سے سندھ ہے۔ اب وفاق میں بھی وہ حکومت کا حصّہ ہے۔ پہلے انہیں پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت سے جو شکایات ہوتی تھیں، اب نہیں ہوں گی۔ متحدہ قومی موومنٹ بھی اب ان کی شریک ہے۔ اس سے بہتر موقع کب ملے گا کہ سندھ کو ایک مثالی صوبہ بنادیں۔
وفاق میں تو پی ٹی آئی کے علاوہ ملک کی ساری سیاسی جماعتیں ہیں۔ سب کی دانش، تدبر اور تجربہ کب کام آئے گا؟ اجتماعی قیادت کی آزمائش ہے۔ اس اتحاد میں سارے علاقوں کی نمائندگی ہے۔ سب مل کر بہترین حکمرانی کرکے دکھائیں۔ اپوزیشن کے دنوں میں وہ حکومت میں جو خامیاں، بدعنوانیاں دیکھتے رہے تھے، ان کو دور کریں۔ پاکستان تحریک انصاف وفاق میں اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے۔ اسمبلی میں ہوتی تو اور مؤثر ہوتی لیکن اس کے پاس بھی خیبر پختونخوا ہے۔ آزاد جموں کشمیر ہے۔ گلگت بلتستان ہے۔
وفاق اور پنجاب کی حکومتیں گئی ہیں مگر بہتر حکمرانی کے تجربے کے لیے تین حکومتیں اس کے پاس ہیں۔ وفاق کے سابق وزراء، مشیر، معاونینِ خصوصی اپنی مہارت، صلاحیتیں، اہلیت، دانش، ان تینوں حکومتوں میں استعمال کریں۔ عمران خان بار بار کہتے ہیں کہ امریکہ اور مغرب کو ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ ان ترقی یافتہ ملکوں نے برسوں کی جدو جہد، خانہ جنگیوں، خامیوں اور غلطیوں کے بعد جو سماجی معاشی سسٹم بنا لیا ہے جس سے عام شہری کی زندگی بھی محفوظ اور مامون ہے۔ ایسا سسٹم ان تینوں حکومتوں میں قائم کرکے دکھائیں۔ جو دوسرے صوبوں کے لیے ایک مثال بنے۔ لوگ انہیں دوبارہ مرکز میں دیکھنا چاہیں۔
بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت ہے۔ جو وفاق میں بھی ہے۔ اسے بھی وہاں سے طاقت مل سکتی ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کو درپیش مسائل کا علم پوری دنیا کو ہے۔ ابھی بلدیاتی انتخابات میں ساری پارٹیوں نے حصّہ لیا ہے۔ وہاں مضبوط بلدیاتی ادارے قائم کرکے عام شہری کو ایک آسان زندگی کا موقع دیا جا سکتا ہے۔ بلوچستان خطّے کا مستقبل ہے۔ تاریخ ان سب قائدین کی طرف دیکھ رہی ہے۔ یہ ایک دوسرے سے خوف کھانے، ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے میں اپنی توانائیاں صَرف نہ کریں۔
عمران خان لائقِ تحسین ہیں کہ انہوں نے اپنے جلسوں، ریلیوں، ویڈیو پیغامات سے پورے پاکستان میں حقیقی آزادی اور باعزت زندگی کے لیے ایک جذبہ پیدا کردیا ہے۔ یہ جذبہ سارے پاکستانیوں کی طاقت بن سکتا ہے۔ فوری الیکشن نہ بھی ہوں تو انہیں پورا سال انتخابی مہم کے لیے مل رہا ہے۔
پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک ایسا موڑ ہے کہ کوئی سیاسی پارٹی محرومی کا شکوہ نہیں کر سکتی۔ ہر ایک وفاق میں، صوبے میں کہیں نہ کہیں اقتدار میں شریک ہے۔ اس سے زیادہ سنہری موقع کوئی ہو ہی نہیں سکتا کہ اپنے اپنے حکومتی علاقوں میں مثالی معاشرے قائم کرکے دکھائیں۔ لمحے کو گرفت میں لیں۔ ساری سیاسی جماعتوں کو وقت للکار رہا ہے۔ ہر ایک کی آزمائش ہے۔ ہر ایک کو ایک علاقہ ملا ہوا ہے۔ اپنی صلاحیتیں دکھانے اپنے بازو آزمانے کا۔
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگردفتر میں ہے
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔