ہتھیاروں سے کھیلنے والے پاکستانی شہزادے

’’محمد جذلان ولد محمد فیصل صابر انٹرمیڈیٹ کے بعد آئی سی ایم اے پاکستان کا ہونہار طالب علم تھا۔ بہت خوش مزاج، بااخلاق۔ ہر ایک سے خلوص اور محبت سے بات کرنا، بڑوں کا ادب، اساتذہ کا احترام کرنا ہی کافی نہیں تھا بلکہ وہ باہمت نوجوان برائی اور برے کام سے روکنے کی تلقین کرتا۔ یہ اس کی خاص خوبی تھی۔ نہ صرف ایک اچھا طالب علم بلکہ بہت اچھا بیٹا بھی تھا۔ دو بھائیوں میں بڑا، بہن کا خیال رکھنا اور گھر کا بڑا ہونے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنا اور ہر ایک کا خیال رکھنا۔

 ہر کسی کی خوشیوں میں خوش اور دُکھ میں سب سے آگے بڑھ کے ساتھ دینا، اس کی سو خوبیوں پہ بھاری یہ خوبی تھی۔ خوش مزاج، دوستوں اور محفل کی جان تھا۔ یہ نوجوان شاید ہی کوئی لمحہ ایسا ہو جب مسکراتا نظر نہ آیا ہو‘‘۔ یہ ہنستے مسکراتے جواں مرگ جذلان صابر کے بارے میں آئی سی ایم اے کی ایک لیکچرر فرحین لودھی کے تاثرات ہیں۔ جذلان کے معانی ہی مسرت، خوشی اور انبساط کے ہیں۔ سپر ہائی وے کراچی کے نزدیک ایک نئی آبادی میں یہ خوشی ہم سے چھین لی گئی۔ 75سال سے ہم سے خوشیاں ہی چھینی جارہی ہیں۔ کبھی کبھی ایسے وقفے آتے ہیں جب ہم پر انبساط کی بارش ہو جاتی ہے۔

آج اتوار ہے، اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں سے ڈھیر ساری باتیں کرنے کا دن۔ میری خواہش تو یہ رہی ہے کہ دوپہر کے کھانے پر آپ کی ملاقات اپنے مستقبل سے ہو۔ مستقبل اپنے حال سے ملے۔ اس سے کچھ سیکھے۔ ویسے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہم بڑوں کو چھوٹوں سے سیکھنا چاہئے۔ ہمارے ذہن تو تھک چکے ہیں۔ ہمارے پاس معلومات پرانی ہوتی ہیں۔ بچوں کے ذہن تازہ ترین خبروں سے مزین ہوتے ہیں۔ میں نے ایک دو بار محلے داری کی تمنّا بھی کی ہے کہ عصر کی نماز کے بعد آپ اپنے ہم محلہ نمازیوں سے ملیں۔ ایک دوسرے کا دکھ جانیں۔ لے دے کے مسجدیں رہ گئی ہیں جہاں محلے والے ایک دوسرے کی جھلک دیکھ لیتے ہیں۔ مسجد تاریخِ اسلام میں ہمیشہ مرکز و محور رہی ہے۔ اب بھی اسے یہ درجہ دیا جائے تو محلے داری واپس آ سکتی ہے۔ ہم ایک دوسرے کا دُکھ درد بانٹ سکتے ہیں۔ محلوں میں ہم آہنگی ہوگی تو شہر میں امن و سکون ہوگا۔ شہروں میں ایک دوسرے کے غم میں شرکت ہوگی تو پورے ملک میں ہم آہنگی اور یک جہتی ہو سکتی ہے۔

جذلان 19سال کا ہوگا۔ یہ یتیم بیٹا اپنے گھر کا بڑا تھا۔ والد نابینا تھے اور ایک حادثے میں اپنی جان سے گزر گئے تھے۔ اب پورے خاندان کی تمنّائیں، امنگیں اس نوجوان سے وابستہ تھیں۔ بہت خوش باش جیسا کہ فرحین لودھی بتارہی ہیں۔ موسیقی کا رسیا، گٹار سے اپنے اہلِ خانہ اور دوستوں کا دل بہلانے والا۔ وہ بندوق کلچر کا شکار ہو گیا۔ کراچی کے نزدیک ایک نئی بستی آباد ہوئی ہے۔ وہ جو اقبال نے کہا تھا:

مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد

کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد

تازہ بستیاں آباد ہورہی ہیں۔ رہن سہن کے جدید انداز، کھلی تازہ ہوائیں، لگتا ہے کہ آپ یورپ کے کسی ملک میں ہیں۔ لوگ محفوظ زندگی کی دھن میں یہاں اپنے گھر بسا رہے ہیں۔ یہاں کے مکین پرانے شہر کے رشتے داروں، احباب کو پکنک پر بلاتے ہیں۔ ہم جماعتوں کو اس پُرامن بستی میں امتحانات کی تیاری کرنے کے لیے، جذلان بھی علم کی پیاس بجھانے یہاں آیا تھا۔ یہ تو کسی کو خبر نہیں ہوتی کہ وہاں موت انتظار میں ہے۔ شوکت علی عظیم گلوکار کہا کرتے تھے: ’’قبراں انج اڈیکن جیویں ماواں‘‘۔ قبریں اس طرح انتظار کرتی ہیں جیسے مائیں۔ شوکت علی بھی چلے گئے۔ دو روز پہلے ان کی رفیقۂ حیات بھی ان سے جا ملیں۔

ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ آج وہ، کل ہماری باری ہے مگر ایک عمر ہوتی ہے جانے کی۔ جذلان کی عمر تو پڑھنے، کھیلنے، کھانے کی تھی۔ وہ ہمارا مستقبل تھا۔ ہمارا Future Resident۔ اسے عادت تھی کہ لوگوں کو غلط کاموں سے روکے، سمجھائے، یہی عادت اس کے بہیمانہ قتل کا سبب بن گئی۔ سڑک پر موٹر سائیکل سے خطرناک کھیلوں کا مظاہرہ کرتے اس نے اپنے ایک ہم عمر کو منع کیا۔ 

وہ ان کی گاڑی سے ٹکرانے لگا تھا۔ یہ سمجھانا قیامت بن گیا۔ موٹر سائیکل سوار نوجوان نے موبائل فون سے رابطہ کرکے اپنے بھائیوں کو بلا لیا۔ جذلان اور اس کے دوستوں نے گاڑی بھگا کر مقتل سے نکلنے کی کوشش کی مگر اجل بےتاب تھی۔ جن کے ہاتھوں قتل کا عظیم گناہ سرزد ہونا تھا، ان پر بھی وحشت سوار تھی۔ گولیاں برسادی گئیں، ’’تمہاری جرأت کیسے ہوئی۔ ہمیں نصیحت کرنے کی‘‘۔ میں قاتلوں کے نام نہیں لینا چاہتا۔ وہ بھی کسی ماں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ کسی باپ کے بڑھاپے کا سہارا ہیں۔ یہ وہ ماں باپ ہی جانتے ہیں کہ یہ ٹین ایجرز اس سفاک مزاج کے حامل کیسے ہوئے۔ پندونصیحت ان کے مزاج نازک پہ گراں کب سے گزرنے لگے۔

کراچی ہی نہیں، ملک کے اکثر بڑے شہروں میں نازو نعم میں پلنے والے نو عمروں میں یہ جارحانہ رجحانات پرورش پارہے ہیں۔ وہ برسر اقتدار طبقوں میں بھی دیکھتے ہیں کہ طاقت بندوق کی نالی سے حاصل ہوتی ہے۔ حکمران طبقے، بندوق برداروں کے جلو میں سائرن بجاتے ہوئے گزرتے ہیں۔ ملک میں کوئی سسٹم نہیں ہے، شائستگی نہیں رہی، تدبر ادراک سب متروک ہو چکے ہیں۔

 گالیاں اور گولیاں ہی جینے کے انداز ہیں۔ تحمل برداشت ناپسندیدہ ہو گئے ہیں۔ اب علم اور فضل عزت و وقار کا ذریعہ نہیں ہیں بلکہ دیکھا جاتا ہے کہ کتنی بڑی گاڑیاں ہیں، کتنے ڈبل کیبن، اس میں کتنے مسلح گارڈ ہیں۔ وڈیوز ہیں جن میں نوجوان نئے نئے پستولوں، بندوقوں، رائفلوں سے کشتوں کے پشتے لگارہے ہیں۔ ایسے لاکھوں خاندان ہیں جنہیں با اثر کہا جاتا ہے۔ وہاں لڑکے بالے پہلے مصنوعی اسلحے سے دل بہلاتے ہیں پھر کبھی کبھی باپ کی گاڑی اور باپ کا اسلحہ لے کر نکل پڑتے ہیں۔ واپس آنے پر مائیں یہ نہیں پوچھتیں کہ کس کا خون کرکے آئے ہو بلکہ بڑے لاڈ رچائو سے یہ دیکھتی ہیں کہ اپنے شہزادے کے کہیں خراش تو نہیں آئی۔

جذلان کی اپنی کہانی بھی ادھوری رہ گئی۔ اس سے وابستہ گھر والوں کی کہانیاں بھی اذیت اور غم سے جڑ گئی ہیں اور جن نو عمروں نے اسلحے کا کھیل کھیلا، ان کے ماں باپ بھی اب مہینوں سولی پر لٹکے رہیں گے۔ ایک غریب اور قرضوں تلے دبے ملک میں پہلے ہی پریشانیاں کم ہیں کہ نوجوان اولادوں کا دکھ بھی برداشت کرنا پڑے۔ مقتول اور قاتل دونوں کے خاندانوں کو۔ عبرت حاصل کرو آنکھیں رکھنے والو!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔