بے خبر دانشور، با خبر عوام

آسمان کی آنکھ جو کچھ دیکھ رہی ہے۔ کیا 44 کروڑ آنکھیں بھی وہی مشاہدہ کررہی ہیں۔

اطلاعات کا ایک سیل رواں ہے جو آنکھوں کانوں کو بہا ئے لے جارہا ہے۔ ہر پاکستانی حیرت زدہ ہے۔ بڑے بوڑھے کہہ رہے ہیں اپنی زندگی میں انہوں نے کبھی یہ نہیں دیکھا تھا جو اب ان کے سامنے ہورہا ہے۔ یہ انصاف کا عظیم منظر ہے یا انصاف کا قتل ہے کہ ملک کا وزیر اعظم۔ سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ جو اتفاق سے باپ بیٹا ہیں۔ وہ اپنی اسی حیثیت سے عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں۔ ان کی ضمانت میں توسیع ہورہی ہے۔ فرد جرم عائد نہیں ہورہی ہے۔

مہنگائی اس سطح پر کبھی نہیں گئی تھی۔ پیٹرول ایک ہی ہفتے میں دو بار تیس تیس روپے فی لیٹر بڑھایا گیا۔ بجلی کےنرخ میں چار روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ گیس کے ریٹ زیادہ کردیے گئے ہیں۔ کہیں سے کوئی اچھی خبر نہیں آرہی ہے۔ ایسے بحران میں اپوزیشن پُر اعتماد ہے۔ خوش دکھائی دیتی ہے۔ نوزائیدہ حکومت کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ جس مقصد کے لیے انہوں نے تخت حاصل کیا تھا وہ پورا ہوگیا ہے۔ قوانین میں تبدیلیاں ہوگئی ہیں۔ انتخابی اصلاحات ہوگئی ہیں۔

یہ تو سامنے کی باتیں ہیں۔ جو کچھ پس پردہ ہورہا ہے اس سے، اخبار پڑھنے والے،ٹی وی چینلوں کی خبریں سننے دیکھنے والے،ٹاک شوز بغور دیکھنے والے بے خبر ہیں، اسمارٹ فون والے،سب سے زیادہ با خبر ہیں۔ گزشتہ چھ دہائیوں میں حقیقی خبریں سینہ بہ سینہ چلتی تھیں۔ اب یہ سوشل میڈیا پر وڈیوز اور آڈیوز میں دستیاب ہیں۔ پہلے ایسے بیانات کی فوٹو کاپیاں بانٹی جاتی تھیں۔ یا سائیکلو اسٹائل کیے جاتے تھے۔ اب یہ واٹس ایپ گروپوں میں گردش کررہی ہیں۔ ٹویٹ کررہی ہیں۔ یو ٹیوب چینل سے دکھائی جارہی ہیں۔ اینکر پرسن اب یو ٹیوب والے زیادہ مقبول ہورہے ہیں گھروں میں بہو بیٹیاں یہ سن رہی ہیں۔ چوپالوں میں ایک اسمارٹ فون کی آواز بلند کردی جاتی ہے۔ کئی کئی بزرگ سن رہے ہوتے ہیں۔

اب کچھ چھپانا بہت مشکل ہورہا ہے۔ انہونیاں ہورہی ہیں۔ قانون بھی اپنی خلاف ورزی پر خوش ہے۔ مزے لیتا ہے۔ بڑے بڑوں کی پگڑیاں اچھالی جارہی ہیں۔ دستاریں سنبھالنے والا کوئی نہیں ہے۔ جعلی خبروں کو حقیقی خبریں سمجھا جارہا ہے۔

وقت خود حیرت میں ہے کہ عام لوگوں کی آنکھوں میں جو سرخی ہے۔ چہروں پر برہمی ہے۔لہجے میں تندی ہے۔ آس پاس سے بیزاری ہے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے۔ پہلے اعصاب کا تنائو کچھ عرصہ لیا کرتا تھا۔ ذہنوں میں الائو پہلے زیادہ دیر سلگتے تھے۔ چنگاریاں شعلہ بننے میں دیر لگاتی تھیں ۔اب سوشل میڈیا نے ساری رکاوٹیں دور کردی ہیں۔ حجاب اٹھ گئے ہیں۔ پہلے اشرافیہ اس طرح بے آبرو نہیں ہوتی تھی۔

پہلے بھی شعلہ بیاں آتش نوا لیڈر آتے تھے۔ ان کے جلسے لوگ بہت اشتیاق سے سننے آتے تھے۔ ان میں صرف ان کے حامی ہی نہیں ۔ مخالفین بھی ہوتے تھے۔ غیر جانبدار بھی۔ لیکن ان کی شعلہ نوائی پلک جھپکنے میں واہگہ سے گوادر تک نہیں پھیل جاتی تھی۔ اخبار کے ذریعے اشاعت میں کم از کم 24گھنٹے لگتے تھے۔ رسالوں کے وسیلے سے ہفتے، ٹی وی چینلوں سے گھنٹے۔ اب تو سیکنڈوں کی بات ہے۔ کہیں ٹویٹر سبقت لے جاتا ہے۔کہیں انسٹا گرام۔ کبھی فیس بک۔ سب سے زیادہ متحرک اور مفصل واٹس ایپ گروپ ہیں۔ دستاویزیں،تصویریں، وڈیوز، سوشل میڈیا جہاں رہبروں کو وقعت دے رہا ہے ان کا فرمان ہر کس و ناکس تک پہنچارہا ہے۔ وہاں یہ ان مقتدر رہنمائوں کو بے نقاب بھی کررہا ہے۔ طاقت ور رسوا بھی ہورہے ہیں۔

حالات کس رُخ پر لے جارہے ہیں۔ واقعات کس منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

بہت سے اداروں کی تو یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ مانیٹر کرکے متعلقہ حکام کو با خبر کریں۔ مگر یہ حالات و واقعات مہنگائی زدہ بستیوں میں کیا کہرام مچانے والے ہیں۔ جلتے دلوں۔تڑپتے ذہنوں میں جو حشر برپا کررہے ہیں اس کا معروضی نتیجہ کیا ہوگا۔

دیہات ہوں کہ شہر بے چینی ایک سی ہے۔ بے قراری گلگت بلتستان میں بھی وہی ہے۔ جو آزاد کشمیر میں ہے۔ بے صبری پنجاب میں بھی وہی ہے جو سندھ میں ہے۔ اضطراب خیبر پختونخوا میں بھی اسی شدت کا ہےجیسا بلوچستان میں ہے۔ اسمبلیوں کے اجلاس ہورہے ہیں۔ مضطرب۔ مشتعل۔ بیزار عوام کے نمائندے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود ہیں۔ کیا ان کی تقریریں۔ قراردادیں اس کرب کی ترجمانی کررہی ہیں۔ جو گلی کوچوں میں پایا جاتا ہے۔ کیا ایوانوں کے ارکان اپنے ووٹروں کے مزاج سے آشنا ہیں۔ بزرگوں، مائوں، بہنوں، دادیوں، نانیوں، بیٹوں، بیٹیوں،پوتوں، پوتیوں، نواسوںاور نواسیوں کے ذہنوں میں اسمارٹ فون پر گردش کرتی وڈیوز جو بیداری برپا کررہی ہیں۔ سوالات کے جو کانٹے اُگ رہے ہیں کیا ان حلقوں کے منتخب نمائندے وہی سوالات اقتدارکے ایوانوں میں پیش کرنے کی جرأت رکھتے ہیں۔

جنہیں ہم کہہ نہیں سکتے، جنہیں تم سن نہیں سکتے

وہی باتیں ہیں کہنے کی، وہی باتیں ہیں سننے کی

ہم تو کئی دہائیوں سے مصلحت کے عادی ہیں۔ بہت کچھ جانتے ہوئے بھی لکھ نہیں سکتے۔ ہمارے اندر از خود سنسر کے آلے لگے ہوئے ہیں۔ کہیں چمک حائل ہے۔ کہیں خوف۔ لیکن واٹس ایپ گروپ۔ سوشل میڈیا پر تو جانباز سرفروشی پر تلے ہوئے ہیں۔ اشاروں کنایوں میں نہیں۔ وہاں جادو وڈیوز میں سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ بہت سی اطلاعات جو جعلی کہہ کر مسترد کردی جاتی ہیں۔ وہی بعد میں سچی ثابت ہورہی ہیں۔ سیف الدین سیف یاد آتے ہیں:

بڑے خطرے میں ہے حسنِ گلستاں ہم نہ کہتے تھے

چمن تک آگئی ، دیوارِ زنداں ہم نہ کہتے تھے

خزاں کی آہٹوں پر کانپتی ہیں پتیاں گل کی

بکھرنے کو ہے اب زلف بہاراں ہم نہ کہتے تھے

خطرات بڑھ رہے ہیں۔ شاخیں درختوں سے سوال کرنے لگی ہیں۔ ذرّے پہاڑ کو ریزہ ریزہ کررہے ہیں۔

تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا

دانشور بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اہل جنوں آگے نکل رہے ہیں۔ آتش نمرود میں عشق بے خطر کودنے والا ہے۔ عقل لب بام ابھی محو تماشا ہے۔

جو تھا نہیں ہے، جو ہے نہ ہوگایہی ہے اک حرف محرمانہ

قریب تر ہے نمود جس کی، اسی کا مشتاق ہے زمانہ

جہانِ نو ہورہا ہے پیدا، وہ عالم پیر مر رہا ہے

جسے فرنگی مقامروں نے بنادیا ہے قمار خانہ


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔