یہ 75 سال والی عام مہنگائی نہیں

آج اتوار ہے۔ بیٹوں بیٹیوں سے، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں کے سوالات کے جوابات دینے کا دن۔ کیا آپ تیار ہیں۔ سوالات ہم بتادیتے ہیں۔

کیسے حکمران نصیب ہوئے ہیں۔ ہر روز تکلیف تو دے رہے ہیں۔ ریلیف بالکل نہیں۔

کتنے سفاک، کتنے شقی القلب کہ 22 کروڑ پر بجلی گرارہے ہیں۔ چہرے پر کوئی تاسف سلوٹیں۔ نہ کوئی پشیمانی۔ بلکہ قہقہے لگارہے ہیں۔ ایک درجن سے زیادہ سیاسی پارٹیاں۔ مختلف علاقوں کی نمائندگی ۔ مختلف زبانیں بولنے والے مختلف قبیلوں سے تعلق۔ سارے امیر زادے۔ سارے اشراف۔ سارے خواص۔ جن کے آگے پیچھے غلاموں کی فوج۔ جن کے آباؤ اجداد نے صدیوں اپنے لوگوں کے رہن سہن کی فکر نہیں کی۔ وہ صرف ایک دن مرنے کیلئےپیدا ہوتے ہیں۔ اور یہ ہمیشہ زندہ رہنے کیلئے زمین پر اتارے جاتے ہیں۔ ان کے باپ دادا نے غلاموں سے کبھی ہمدردی کی۔ اور نہ غلاموں کے باپ دادا نے کبھی اپنے آپ کو جیتا جاگتا محسوس کرتا انسان اپنے آپ کو سمجھا۔ ان کے ہاں کسی نے کبھی نہیں سوچا کہ ان کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے آزاد پیدا کیا ہے۔ ان کے بھی وہی حقوق ہیں جو سرداروں۔ جاگیرداروں۔ زمینداروں۔ سیٹھوں کے ہیں۔

یہ درست ہے کہ پوری دنیا میں مہنگائی ہے۔ تیل گراں ہورہا ہے۔ دوسرے ملک بھی مشکل فیصلے کررہے ہیں۔ آئی ایم ایف، عالمی بینک دباؤڈالتے ہیں۔ قوموں پر ایسے وقت آتے ہیں تو قومیں متبادل راستے تلاش کرتی ہیں۔ مہنگائی کا بوجھ بانٹتی ہیں۔ سارا بارِگراں پہلے سے بوجھ تلے دبے 98 فی صد کی طرف نہیں دھکیل دیتیں۔ پیٹرول کی ہوش ربا مہنگائی کا مقابلہ پبلک ٹرانسپورٹ سے کیا جاتا ہے۔

 ہنگامی بنیادوں پر جیسے راستے روکنے کے لیے کنٹینر روکے جاتے ہیں۔ اسی طرح سارے بڑے شہروں کے لیے بسوں کا انتظام کیوں نہیں کیا جاسکتا۔ کہیں کوئی ایسی حکمت عملی کے لیے تیاری کرتا بھی دکھائی نہیں دیتا کہ کس شہر کو کتنی بسوں کی ضرورت ہے کہ لوگ موٹر سائیکل گھروں پر کھڑی کردیں۔ اپنی گاڑیاں نکالنی بند کردیں۔ پیٹرول اور ڈیزل کا بوجھ اس طرح بانٹا جاسکتا ہے۔ 

ماس ٹرانزٹ(بڑے پیمانے پر آبادی کی نقل و حرکت) کے بارے میں اب عاجلانہ فیصلے کرنے چاہئیں۔ مہنگائی میں اضافہ کرنا تو ایک پریس کانفرنس یا ایک ٹویٹ کی مار ہے۔ لیکن مہنگائی کے مقابلے کے لیے کچھ عملی اقدامات کرنے پڑیں گے۔یہ مہنگائی جس کے کوڑے عوام کو مارے جارہے ہیں، معمولی نہیں ہے۔ یہ کایا پلٹ ہے۔ 98 فی صد کا جینا پہلے ہی بہت محال تھا، اب نا ممکن ہورہا ہے۔ یہاں جبراً رہنے سہنے کے انداز بدلنے پڑ رہے ہیں۔ لباس پر اثر پڑ رہا ہے۔ دو وقت کی روٹی متاثر ہورہی ہے۔ بیٹیوں کی شادیوں کے لیے جمع پونجی نکالنی پڑ رہی ہے۔ مکان کی قسطیں ادا کرنے میں رکاوٹ پڑ رہی ہے۔ گھروں میں جھگڑے ہورہے ہیں۔ دوائیں خریدنی لازمی ہیں ان کی ہر مہینے پہلے سے زیادہ قیمت ہورہی ہے۔ بچوں کی اسکولوں کی فیسیں دینا دوبھر ہورہا ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے ہجوم بڑھ رہا ہے۔

پوری طرح خوشحال ماہرین ٹی وی چینلوں پر اچھل اچھل کر زمین و آسمان کے قلابے ملارہے ہیں۔ مگر غریب کو تو اس سے کوئی راحت نہیں مل رہی ۔ کوئی نہیں بتارہا کہ وہ اپنی چادر کیسے پھیلائے ۔ یہ وہ عام مہنگائی نہیں ہے ۔ جو گزشتہ 75برسوں سے ملک میں آتی رہی ہے۔ یہ غیر معمولی صورت حال ہے۔ اس کا مقابلہ بھی غیر معمولی فارمولوں سے ہوسکتا ہے۔ لوگ مجبور ہیں۔ بیزار ہیں۔ اذیت ان کی برداشت سے باہر ہورہی ہے۔

کیا یہ ایک درجن سے زیادہ پارٹیاں سوچنے سمجھنے سے عاری ہوچکی ہیں چند ماہ بعد جائیں یا اگست 2023 میں ۔ ووٹرز کے پاس کس منہ سے جائیں گی۔ پی ٹی آئی کی باروری سرنگوں کا بہانہ کب تک چلے گا۔ چلو مان لیا کہ وہ بارودی سرنگیں بچھا گئے۔ بارودی سرنگیں تلاش کرنے پر بھی تو تحقیق ہوچکی ہے۔ ایسے آلات بن چکے ہیں ۔ آپ تو اتنی مہنگائی کررہے ہیں اور اتنی تیزی سے کہ پوری سڑک پر بارود پھیلارہے ہیں۔ اپنے چلنے میں بھی مشکل پیدا کررہے ہیں۔آپ جب تحریک عدم اعتماد لے کر آرہے تھے۔ اور اقتدار کی مسندوں پر آپ کی لالچ بھری نظریں تھیں۔ اس وقت آپ کو ان بارودی سرنگوں کا علم نہیں تھا۔ آئی ایم ایف سے شوکت ترین کیا باتیں کررہے ہیں۔ کیامعاہدہ ہورہا ہے۔ یہ سب آپ کے فہم میں تھا۔ ان دنوں تو آپ کو صرف وزارتوں کی طمع تھی۔

زمانہ خبردار کررہا ہےکہ 98 فی صد کو اس قیامت بھری صورت حال میں اپنا رہن سہن مجبوراً بدلنا پڑ رہا ہے مگر آپ کے طور طریقے وہی ہیں۔ آپ کی بڑی بڑی گاڑیاں اسی طرح پیٹرول پی رہی ہیں۔ آپ کے ساتھ چلنے والے محافظوں کے چہروں پر ڈھاٹے اسی طرح بندھے ہوئے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں مشین گنوں کا رُخ اسی طرح عوام کی جانب ہے۔ آپ نے اپنے بچاؤ کیلئے اپنے مقدمات کی بارودی سرنگیں ناکارہ کرنے کیلئے قوانین منظور کرلیے۔ نیب کے پھن سے زہر نکال لیا لیکن عوام کو سہولت دینے کیلئے پارلیمنٹ کا کوئی مشترکہ اجلاس اب تک نہیں بلایا۔ آپ کیوں نہیں سوچتے کہ جس طرح آج آپ مشترکہ اجلاس بلاکر راستہ صاف کررہے ہیں۔ کل آنے والی اسمبلی اس سارے عمل کو الٹ بھی سکتی ہے۔ اور ہوگا یہی۔ آپ اس طرح کی کارروائیوں سے اپنے لیے ہی بارودی سرنگیں بچھارہے ہیں۔

جب سیلاب آتا ہے تو وہ صرف سیدھے سیدھے نہیں چلتا۔ جہاں سے اسے راستہ ملتا ہے وہ ادھر چل پڑتا ہے۔یہ پہلے والا زمانہ نہیں ، یہ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی ہے۔ وقت قیامت کی چال چل رہا ہے۔ اب ہر ایک ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے۔ کتنی بھی مہنگائی ہو ۔ فون کا بیلنس ضرور بھرا جاتا ہے۔ اپنے دماغ میں بھرے غصے کا اظہار کی بورڈ سے اسمارٹ فون کی اسکرین پر ہورہا ہے۔ آسٹریلیا۔ بلجیم۔ کیلی فورنیا۔ یو اے ای کوئی بھی نا قابل رسائی نہیں ہے۔ بھوکے ننگے۔ کنگال۔ مجبور۔ مقہور۔ بیزار سب کے دل اسمارٹ فون کی اسکرین پر ایک ساتھ دھڑک رہے ہیں۔ فارورڈنگ ہورہی ہے۔ بار بار ہورہی ہے۔ مہنگا پیٹرول رکاوٹ بن رہا ہے نہ حکمرانوں کے ٹویٹ راستہ روک رہے ہیں۔

اس مخلوط حکومت میں کوئی تو صاحب اولاد ہوگا۔ کسی کے بچے تو اتوار کو کوئی سوالات کرتے ہوں گے۔ کوئی تو درد مند ہوگا۔ کوئی تو سرِ دربار۔ بلند آواز سے کہے گا۔ ’بادشاہ نے کپڑے نہیں پہنے ہیں۔‘


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔