Time 22 جون ، 2022
بلاگ

ایم کیو ایم کی تقسیم، پوشیدہ حقائق

آج سے 30؍ سال پہلے 19؍ جون 1992ء کو کراچی میں ’’فوجی آپریشن‘‘ کے نتیجے میں دہشت گردی ختم نہ ہوئی ورنہ مزید تین آپریشن نہ کرنے پڑتے البتہ متحدہ قومی موومنٹ کو توڑنے کا جوعمل اس وقت شروع ہواتھا وہ اپنے منطقی انجام تک پہنچتا نظر آرہاہے مگراس سے جو سیاسی خلا پیدا ہورہا ہے اس کو کون پر کرےگا۔

کیا ہم ایک بہتر سیاسی سمت کی طرف جائیں گے اورصورتحال بہتر ہوگی۔ اس کی واضح شکل آئندہ ہونے والے بلدیاتی الیکشن، ایک اور ضمنی الیکشن اور 2023ء یا قبل از وقت عام انتخابات میں سامنے آجائے گی مگرنئے سیاسی رجحانات بظاہر صاف نظر آرہے ہیں۔

اس وقت ایم کیوایم کے جتنے بھی گروپس ہیں لندن سے بہادرآباد تک اور پی آئی بی سے لانڈھی اور نرسری تک (گو مصطفی کمال PSP کو گروپ نہیں مانتے) ان میں ’انا‘ کے مسائل زیادہ ہیں جو بظاہر ختم ہوتے نظر نہیں آرہے۔ غلطیوں اور مبینہ جرائم میں سب کا کہیں نہ کہیں کوئی حصہ نظرآتا ہے اور ریاستی سطح پر مہاجر سیاست سے جڑا ہر گروپ ڈرائی کلیننگ کے بعد بھی ہنوز ’’گرے لسٹ‘‘ میں ہے۔

آپ بھی سوچتے ہوں گے یہ گرے لسٹ کہاں سے آگئی۔ FATF کے بعد یہ اصطلاح سامنے آئی ۔ یقین جانیں ہماری سیاست میں بھی اس طرح کی ’لسٹ‘ موجود ہے یہاں تو ایک زمانے میں پی پی پی جیسی جماعت ’بلیک لسٹ‘ تھی بعد میں مسلم لیگ (ن) گرے لسٹ میں آگئی اور اب خطرہ ہے کہ عمر ان خان کے ’نیوٹرل‘ پر متواتر حملوں کے نتیجے میں تحریک انصاف بھی کسی لسٹ میں نہ چلی جائے۔

ایم کیوایم کامعاملہ مگر ان سب سے مختلف ہے۔ ایم کیو ایم (لندن) اب بھی بلیک لسٹ میں ہے اور گو کہ قانونی طور پر وہ کالعدم جماعت نہیں مگر 90 اب بھی نوگو ایریاہے۔ 22؍ اگست 2016ء کو ایم کیوایم پاکستان نے اپنا ر شتہ لندن سے توڑ لیا، پارٹی آئین سے ’بانی‘ کا لفظ بھی نکال دیا اور خود بانی کو بھی نکال دیا مگر اس وقت بھی ان کے لوگوں کو پرانے مقدمات کا سامنا ہے۔ سیکٹر اور یونٹ آفس کھولنے کی اجازت نہیں۔

؍19 جون 1992ء کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ ایم کیو ایم میں تقسیم کا عمل 1991ء میں شروع ہوگیا تھا جب بانی کے دو قریب ترین وفادار آفاق اور عامر جو اس وقت کے پارٹی سیٹ اپ میں ’زونل انچارج‘ تھے، پہلے بیرون ملک بھیجے گئے پھر نکال دیئے گئے اور پوری تنظیم معطل کردی گئی۔ اس عمل نے پارٹی کے اندر تشدد کی سیاست کو ایک نیا رخ دیا اور اس کے بعد سے آج تک کئی سو لوگ مار دیئے گئے۔

جون کے آپریشن کی تیاری فروری 1992ء میں شروع ہوگئی تھی بلکہ نومبر یا دسمبر 1991ءسے اور اسی وجہ سے سندھ کے سابق وزیراعلی جام صادق علی مرحوم نے بانی متحدہ الطاف حسین کو آگاہ کردیا اور ملک سے نکل جانے کا مشورہ دیا۔ وہ گئے تو پھر واپس نہ آئے۔

مارچ 1992ء کو جنرل آصف نواز نے اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو سندھ میں ڈاکوؤں کے خلاف اور ان کے سیاسی سرپرستوں جن کو ’’72 بڑی مچھلیوں‘‘ کا نام دیا گیا کے حوالے سے رپورٹ جمع کرائی اورآپریشن کی اجازت مانگی ۔

مئی 92ء کے شروع میں کراچی میں اجلاس ہوا جس میں سابق صدر غلام اسحاق خان بھی موجود تھے اور ایم کیوایم کی قیادت بھی موجود تھی۔ 28؍مئی کو آپریشن شروع ہوا مگر ایک افسوسناک واقعے کے بعد جس میں نو دیہاتیوں کو ڈاکو اور دہشت گرد کہہ کر ہلاک کردیا گیا آپریشن رک گیا اور اس میجر ارشد کو ملٹری کورٹ نے پھانسی دے دی۔

19؍ جون کے آپریشن کا جنرل آصف نواز، نواز شریف اور غلام اسحاق خان کو علم تھا اسی لئے اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اسکے خلاف بیان دیا اور ایم کیو ایم حکومت سے باہر آگئی۔

آپریشن کیلئے پولیس افسران کی فہرست بنی اس وقت راؤ انوار سکھر میں اور بہادر علی بدین میں تعینات تھے انہیں کراچی ٹرانسفر کروایا گیا۔ اہم ترین بات یہ کہ ان سب کو ایک واضح ہدایت دی گئی کہ اگر کوئی گرفتاری کے بعد ’لانڈھی‘ والوں کے ساتھ جانا چاہے تو جانے دیا جائے۔

اس پالیسی پر دونوں بڑی ایجنسیوں میں اختلاف پایا گیا مگر ایم کیو ایم کے حکومت سے نکلنے کے بعد سندھ حکومت بچانا بھی درکار تھا۔بہت سے رہنما اور کارکن لندن سے تعلق توڑنے پر تیار ہوئے مگر وہ آفاق اور عامر خان کے ساتھ نہیں جانا چاہتے تھے، ان میں کچھ اراکین قومی اور سندھ اسمبلی نے دباؤ میں حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور ان کو ایجنسیوں کے حصار میں لایا اور لے جایا جاتا۔

ایم کیو ایم میں الطاف حسین کے بعد سب سے معتبر رہنما چیئرمین عظیم احمد طارق تھے وہ منظر عام پر لائے گئے تو پارٹی کے کئی رہنما ان کے ساتھ آگئے۔

ان سب کو گلشن اقبال میں ایک گھر دلوا کر رکھا گیا اور ان سب کی نگرانی راؤ انوار نے کی۔ تاہم یکم مئی 1993ء کو عظیم طارق اپنے دوستوں سے یہ کہہ کر کہ میں آج رات اپنی فیملی کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں گھر چلے گئے اور وہیں ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوگئے۔ کہتے ہیں بعد میں ان کو مارنے والے بھی مارے گئے۔ (جاری ہے)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔