27 جون ، 2022
اس وقت میاں نواز شریف وزیراعظم تھے، سال تھا1992۔ وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ دیا اور حکومت کو حکم دیا کہ ملک سے سودی نظام کو فوری ختم کیا جائے۔ حکومت نے عملدرآمد کی بجائے سودی نظام کو تحفظ دینے کے لیے سرکاری بنک کے ذریعے اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا اور پھر یہ کیس عدالتوں میں 30 سال تک لٹکتا رہا اور آخر کار اپریل2022 میں ایک بار پھر وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ دیا اور اسے خلافِ اسلام قرار دیتے ہوئے حکومت کو پانچ سال میں سودی نظام کے خاتمے کا حکم دے دیا۔
آج وزیراعظم میاں شہباز شریف ہیں اور اس بار حکومت پاکستان کے سینٹرل بنک یعنی اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو سودی نظام کے تحفظ کے لئے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے ۔ خبروں کے مطابق چار نجی بنکوں نے بھی سود کے خلاف شرعی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کیاہے۔
یعنی پہلی بار جب سودی نظام کے خاتمے کا امکان پیدا ہوا تو اُس وقت نواز شریف حکومت رکاوٹ بنی اور آج 30 سال کی تگ و دو اور Delays کے بعد دوبارہ امید پیدا ہوئی کہ سود کی لعنت سے ہماری جان چھوٹ سکتی ہے تو شہباز شریف حکومت کا اسٹیٹ بنک سپریم کورٹ چلا گیا تاکہ سودی نظام چلتا رہے اور اس کے خاتمے سے متعلق شرعی عدالت کے فیصلے کو ایک بار پھر دہائیوں کے لئے لٹکا دیا جائے۔
ویسے تو یہ معاملہ ہم سب کے لئے بڑی آزمائش کا ہے لیکن اگر سوچا جائے، غور کیا جائے تو شریف فیملی کے لئے یہ بڑی فکر اور غور کرنے کی بات ہے۔ ایک گناہ جو میاں نواز شریف حکومت سے سرزد ہوا اور اُس کی وجہ سے سود کا کاروبار دہائیوں پاکستان میں چلتا رہا جب اُس کا کفارہ ادا کرنے کا سنہری موقع آیا تو ایک بار پھر شریف فیملی کے ہی فرزند شہباز شریف کی حکومت کا سب سے بڑا بنک سودی نظام کے خاتمے کے رستے میں رکاوٹ بن گیا۔
سود کتنا بڑا گناہ ہے؟ اس کے بارے میں اسلام کے کیا احکامات ہیں شریف فیملی کے افراد خوب جانتے ہیں۔میاں نواز شریف ہوں، شہباز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز یا حمزہ شہباز ، سلیمان شہباز یا کوئی دوسرا شریف فیملی کا ممبر ،سب کو معلوم ہے کہ سود گنا ہ کا کام ہے اور اس کا تحفظ کسی طور پر بھی جائز نہیں۔ لیکن پھر بھی جو ظلم پہلے کیا، وہی دوبارہ کیا جا رہا ہے۔ اب کی بار تو شرعی عدالت نے پانچ سال کا وقت دیااور کہا کہ ان پانچ برسوں میں سودی نظام کو ختم کر دیا جائے۔
یہ تو شہباز شریف کےلئے موقع تھا، یہ تو میاں نواز کے لئے موقع تھا کہ نہ صرف اپنے گناہ کا کفارہ ادا کرتے بلکہ پوری قوم کو اس لعنت اور گناہ کے کام سے بچاتے۔ میں نے تو حال ہی میں وزیراعظم شہباز شریف سے بات بھی کی تھی جس کا بنیادی مقصد اُن سے یہ درخواست کرنا تھا کہ سود کے خاتمہ کے لئے شرعی عدالت کے فیصلے پر فوری عملدرآمد کے لئے محترم مفتی تقی عثمانی کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی جائے جو وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کے لئے ایک روڈ میپ تیار کرے اوراس کی نگرانی کرے۔
میں نے وزیراعظم سے یہ بھی درخواست کی کہ اُنہیں پوری دلچسپی سے سود کے خاتمہ کے لئے کام کرنا چاہئے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ حال ہی میں وزیراعظم کی تقی عثمانی صاحب سے ملاقات بھی ہوئی جس میں سود کے معاملہ پر جب بات ہوئی تو شہباز شریف نے وعدہ کیا کہ وہ مفتی صاحب سے بجٹ کے بعد ملاقات کر کے اس معاملہ کے بارے میں حکمتِ عملی بنائیں گے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ شہباز حکومت نے تو اسٹیٹ بنک کے ذریعہ الٹا ہی کام کر دیا۔
دو دن قبل جب میں نے سنا کہ ایک سرکاری بنک کے علاوہ چند نجی بنکوں نےبھی سودی نظام کے تحفظ کے لئے سپریم کورٹ میں اپیل دائرکر دی ہے تو میں نے وزیراعظم سے بات کی جس پر اُنہوں نے کہا کہ اُنہیں اس بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ شہباز شریف پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ اُن کی ناک کے نیچے کیسے ایک سرکاری ادارہ اتنا بڑا کام خود کر سکتا ہے؟ چلیں اگر پہلے معلوم نہیں تھا، اب تو پتا چل گیا ہے۔
اسٹیٹ بنک سے کہیں اپیل واپس لے، دوسرے نجی بنکوں سے بھی یہی کہیں اور سب سے اہم بات کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ پر عملدرآمد فوری شروع کریں، اس کے لئے مفتی تقی عثمانی صاحب کی زیرنگرانی ایک ٹاسک فورس بنائیں جو سودی نظام کے خاتمہ کے لئےکئے گئے اقدامات کی نگرانی کرے۔ میاں نواز شریف، شہباز شریف اور پوری شریف فیملی کے لئے اب بھی موقع ہے۔ شاید آخری موقع!
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔