ایم کیو ایم کی تقسیم پوشیدہ حقائق

(گزشتہ سے پیوستہ)

ایم کیو ایم کے بانی چیئرمین عظیم احمد طارق کا قتل پارٹی کیلئے بڑا نقصان تھا۔ وہ ان چند لوگوں میں سے تھے جو اختلافات اور تقسیم کو ختم کرانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔وہ جب منظر عام پر آئے تو 1992کے آپریشن کے دوران انہوں نے ایک نشست میں کہا،’’میں نے تفتیش کرنے والوں سے کہا کہ جماعت کو ختم کر دیں یا ان کے رہنماؤں کو، جب تک عوامل زندہ رہیں گے اس طرح کی جماعتیں اور گروپس بنتے رہیں گے جب کچھ زور زبردستی کی تو میں نے کہا یار مارتے بھی ہو اور رونے بھی نہیں دیتے۔‘‘

عظیم احمد طارق پارٹی کے اندر چل رہے معاملات سے پریشان تھے، الطاف حسین نے1990 کے بعد پارٹی کے اندرونی اختلافات کو ختم کرنے کے حوالے سے کئی بار کوشش کی۔ بہرحال بقول پارٹی کے ایک بانی رکن کے ’’جب پیسہ اور پاور آئی ‘‘تو ہم اپنے نظریے سے ہٹ گئے ورنہ جو حمایت ایم کیو ایم کے حصے میں آئی تھی وہ نہ پہلے اور شاید نہ آئندہ کبھی کسی کو مل پائے۔ 

ہم نے دلوں پر راج کرنے کے بجائے علاقوں کو کنٹرول کرنا شروع کر دیا،اپنے ہی لوگوں کو خوف زدہ کر دیا۔ جب سلک کا کرتا کھدر کے کرتے کی جگہ لے لے، جب فخریہ انداز میں بسوں اور موٹر سائیکل پر اسمبلی جانے والے بڑی بڑی گاڑیوں میں آنا شروع کر دیں۔دہری شہریت لے لی جائے تو ایسے میں نظریہ اور فلسفہ کہیں پیچھے رہ جاتا ہے۔ اور ایسا ہی کچھ اس جماعت کے ساتھ ہوا جس کے اوپر سے لیکر نیچے تک سب ذمہ دار ہیں۔ 

کون سی ایجنسی ہے جس کے ہاتھوں ہم استعمال نہیں ہوئے۔ ایم کیو ایم کے خلاف کئی آپریشن ہوئے، 1992  پھر  1995، 1998 اور 2008میں تو لیاری گینگ وار کے ذریعے عذیر بلوچ کو بھی استعمال کیا گیا اور خود بقول اس وقت کے سندھ کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا ایک لاکھ اسلحہ کے لائسنس دیے گئے۔ آخری آپریشن جو کسی نہ کسی شکل میں اب بھی جاری ہے، 2014ء میں ہوا۔ ایم کیو ایم پھر بھی انتخابی کامیابیاں حاصل کرتی رہی یہاں تک کہ آخری بڑی کامیابی 2013ءکے الیکشن میں ملی جب پارٹی غالباً 21میں سے 18قومی اسمبلی کی سیٹیں جیتیں۔

1991کی تقسیم کے بعد2010میں اس وقت پارٹی کے اندر اختلافات نے شدت اختیار کی جب ذوالفقار مرزا آپریشن کے بعد بھی سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کے کہنے پر ایم کیو ایم (لندن) نے ایم کیو ایم (پاکستان) کی رائے مانگی تو یہاں اس کی مخالفت ہوئی۔ پارٹی کے اندر رائے شماری کرائی گئی تو اکثریت نے شمولیت اختیار کرنے کے خلاف ووٹ دیا پھر بھی کمزور وزارتیں لے کر حکومت میں شامل ہو گئے۔ یہ ابتدا تھی آنے والے طوفان کی۔

ایم کیو ایم کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عمران فاروق طویل ترین روپوشی اختیار کرنے کے بعد منظر عام پر آئے تو اس طرح کی خبریں آنے لگیں کہ وہ کوئی الگ گروپ بنا رہے ہیں۔ اسی دوران وہ اچانک لندن پہنچ گئے۔ کہتے ہیں ویزا انہیں ہیتھرو ایئرپورٹ پر ملا۔ ایک بار لندن سے ان کا فون آیا تو میں نے کہا ڈاکٹر صاحب کتاب لکھ ڈالیں ۔ایسی روپوشی تو کسی نے نہیں دیکھی، انہوں نے بڑا معنی خیز جملہ کہا تھا ’’مظہر بھائی طوفان سونامی میں بدل جائے گا، زندہ رہے تو سوچیں گے۔‘‘ 2010 میں لندن میں انہیں قتل کر دیا گیا۔ اب پارٹی خاص حد تک انتشار کا شکار ہو چکی تھی۔ بیلٹ باکس میں ایک لاکھ ووٹ پڑ بھی جائیں تو آپ کو تو پتا ہی ہوتا ہے کہ آپ خود اب کہاں کھڑے ہیں۔ 

اسی دوران عامر خان نےجو مشرف کےدور میں آفاق کے ساتھ گرفتار ہوئے تھے، ایم کیو ایم کے مطالبے پر ،پارٹی میں واپسی کی درخواست کی تو رابطہ کمیٹی میں اس معاملے پر تقسیم نظر آئی۔ وہ بھی ایک عجب منظر تھا جب جنرل ورکرز اجلاس میں انہوں نے سب سے معافی مانگی۔ یہ بات بہرحال اب تک راز ہی ہے کہ آفاق سے اختلاف کیا ہوا اور واپسی کیسے ہوئی۔ بہرحال آہستہ آہستہ انہوں نے اپنی جگہ بنالی مگر انیس قائم خانی کو پیچھے کر دیا گیا۔ کچھ پارٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ طے ہوا تھا کہ عامر کو رابطہ کمیٹی میں نہیں لیا جائیگا۔

ایم کیو ایم میں اختلافات بڑھنے کی ایک بڑی وجہ دو لندن اور پاکستان کی رابطہ کمیٹیوں کا بننا تھا۔

الطاف حسین سمیت لندن میں بیٹھے پارٹی رہنماؤں کی سوچ اور اپروچ یہاں کے رہنماؤں سے مختلف تھی۔ 2013کے انتخابات میں تو پہلی بار ایسا ہوا کہ پارٹی کے اندر سے بغاوت ہوئی اور خاموشی سے یا تو تحریک انصاف کو ووٹ پڑوائے گئے یا زور زبردستی والی پالیسی میں اوپر کی ہدایت کے برخلاف نرمی اختیار کی گئی۔ نتیجہ آیا تو ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی میں کراچی سے21سے18سیٹیں جیتیں۔ مگر پی ٹی آئی کو 8لاکھ ووٹ پڑ گیا۔ قومی اسمبلی کی ایک سیٹ ملی اور بظاہر کوئی طوفان کی وجہ نہیں تھی۔ مگر دوسرے روز رات کو جو جنرل ورکرز اجلاس میں ہوا اور جس طرح رابطہ کمیٹی اراکین کو بے عزت کیا گیا وہ پارٹی کے زوال کا باعث بنا۔بہت سے ممبران اور تنظیمی رہنما پارٹی چھوڑ کر ملک سے باہر چلے گئے۔

2016ایم کیو ایم کے نقطہ نظر سے بدترین سال تھا۔ اسی سال تین مزید گروپ سامنے آئے۔ سب سے پہلے مصطفٰی کمال نے اپنے ساتھیوں سمیت ایک جذباتی پریس کانفرنس میں الطاف حسین اور پارٹی سے الگ ہو کر پاک سر زمین پارٹی بنائی۔ اس سے زیادہ خوفناک صورتحال اس وقت سامنے آئی جب22اگست 2016کو کراچی پریس کلب کے باہر ایم کیو ایم کے بھوک ہڑتالی کیمپ سے خطاب کے دوران اچانک الطاف حسین نے پاکستان مخالف نعرے لگوانے شروع کر دیئے پھر نجی چینل پر حملہ ہو گیا۔ وہ دن غالباً شہری سندھ کی اپنے زمانے کی مقبول ترین جماعت کی مقبولیت کا آخری دن تھا۔

 بعد میں پہلے مرحلے میں ایم کیو ایم (پاکستان) اور ایم کیو ایم (لندن) کی راہیں جدا ہوئیں، پھر یہاں اختلاف بڑھا تو ایک ایم کیو ایم ( تحریک بحالی) بن گئی۔ لندن سے بہت سے رہنما الگ ہو کر امریکہ، کینیڈا یا جنوبی افریقہ چلے گئے،کچھ لوگ دبئی میں ہیں۔

2018کے الیکشن میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایم کیو ایم ( پاکستان) کی نشستیں کم کی گئی ہوں مگر ان کا اصل امتحان 24جولائی کو کراچی حیدر آباد میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن ہیں۔ اس کے نتائج بتائیں گے کہ زمینی حقائق کیا ہیں؟ کیا اس صورتحال کے باوجود ایم کیو ایم اپنی ساکھ بچا پائے گی۔ یا 2018ءمیں پی ٹی آئی کی اتحادی رہنے کے بعد پی پی پی کا اتحادی ہونا انہیں مہنگا پڑے گا۔ رہ گئی بات لندن کی تو ان کا دعویٰ اگرNA240کا درست ہے بائیکاٹ کا تو NA-245اور بلدیات میں اور پھر عام انتخابات میں بھی پتا چل جائے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔