30 جون ، 2022
اگر آپ سود کے متعلق وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اپیل کو پڑھ لیں تو معلوم ہو گا کہ کس چالاکی سے اسٹیٹ بینک نے اپنا مقدمہ بنایا۔
کہا تو یہ گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک تو خود شدت سے یہی چاہتا ہے کہ سود کا خاتمہ ہو اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ہمارا بینکنگ سسٹم چلے لیکن ساتھ میں یہ بھی بتا دیا گیا کہ ایسا کرنے کے لئے دہائیوں انتظار کرنا پڑے گا ورنہ معیشت کو خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ اسٹیٹ بینک نے بڑی اسمارٹنس سے یہ پٹیشن تیار کی اور ممکنہ طور پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اسٹیٹ بینک وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف نہیں جا رہا بلکہ صرف کچھ Modifications چاہتا ہے۔
پٹیشن میں جو لکھا ہے اور جس انداز میں عوام کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اُس میں بڑا تضاد ہے لیکن اگر اس پٹیشن کو آپ پڑھ لیں تو ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسٹیٹ بینک نہیں چاہتا کہ سودی نظام ختم ہو۔ شرعی عدالت نے حکومت اور تمام بینکوں کو پانچ سال کا ٹائم دیا ہے کہ پاکستان کے بینکنگ سسٹم کو سود سے پاک کیا جائے لیکن اسٹیٹ بینک کہتا ہے کہ اس مدت میں اگر بینکوں کو اسلامی معاشی نظام کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی گئی تو اس سے پاکستان کی معیشت کو نقصان ہوسکتا ہے۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ تسلسل کے ساتھ بتدریج اسلامی بینکنگ سسٹم کو آگے بڑھایا جائے جیسا کہ ابھی ہو رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق پانچ سال میں ایسا ممکن نہیں۔ جب ایک کام کرنے کی نیت ہی نہ ہو تو پھر ایسا ہی کیا جاتا ہے جیسا اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا۔ کتنا اچھا ہوتا اسٹیٹ بینک کی اس اپیل میں سود کے متعلق اسلامی احکامات اور تعلیمات کا بھی ذکر ہوتا۔ ویسے تو اپنی پٹیشن میں اسٹیٹ بینک نے یہ بھی لکھا کہ کس طرح وفاقی شرعی عدالت کا اپنے فیصلے میں پارلیمنٹ کو سود کے خاتمہ کے متعلق قانون سازی ختم کرنے کا ٹائم فریم دینا آئین سے متصادم ہے لیکن اسی آئین کی اُس شق کا بینک کو خیال نہیں آیا جس میں سود کے جلد از جلد خاتمے کی بات کی گئی ہے۔
آئین پاکستان کو بنے پچاس سال ہونے والے ہیں لیکن سود کا خاتمہ آج تک نہیں ہوا اور آج بھی اسٹیٹ بینک یہ کہتا ہے کہ پانچ سال کی شرط تو بہت جلدی کی تاریخ رکھ دی گئی ہے۔ بدقسمتی سے جب حکمران طبقہ اور افسر شاہی کی سود کو ختم کرنے کی نیت ہی نہ ہو تو پھر کیا کیا جائے؟ عوامی سطح پر سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے بینکوں، جنہوں نے سودی نظام کو بچانے کے لئے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی، کے خلاف بائیکاٹ کی مہم چل پڑی ہے۔ کئی علماء کرام کے علاوہ جماعت اسلامی نے بھی یہی مطالبہ کیا ہے۔
ابھی تک کی ایک مثبت خبر یہ ہے کہ مجھے گزشتہ روز وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ حکومت نے نیشنل بینک انتظامیہ کو کہہ دیا ہے کہ سپریم کورٹ سے اپنی اپیل واپس لے۔ اسٹیٹ بینک کے متعلق مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ اُن کے ساتھ بھی وہ بات کر رہے ہیں تاکہ اسٹیٹ بینک بھی اپنی اپیل واپس لے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی وزیراعظم شہباز شریف کو خط لکھا اور اس مطالبے کے ساتھ کہ اسٹیٹ بینک کی اپیل واپس کروائی جائے، یہ تجویز دی گئی کہ حکومت ایک اعلیٰ سطحی ٹاسک فورس بنائے جس میں معاشی ماہرین، متعلقہ محکموں اور بینکنگ سیکٹر کے افسران، قانونی ماہرین اور ایسے علماء جو معیشت اور اسلامک بینکنگ کے بارے میںمہارت رکھتے ہوں، شامل ہوں۔
یہ ٹاسک فورس وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کے سلسلے میں سسٹم میں موجود رکاوٹوں اور مشکلات کا جائزہ لے کر اُن کا حل تجویز کرے۔ میرا خیال ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تجویز بہت مناسب ہے۔ وزیراعظم حکومتی بینکوں کی اپیلوں کو واپس کروا کے ٹاسک فورس بنائیں، جس میں وزیر خزانہ، گورنر اسٹیٹ بینک اور نجی بینکوں کے سربراہان کے علاوہ محترم مفتی تقی عثمانی، سابق صدر نیشنل بنک سعید احمد، سابق سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود اور ڈاکٹر عشرت حسین وغیر شامل ہوں۔
شہباز شریف صاحب سے امید ہے کہ وہ سود کے خلاف اس جنگ میں اپنا بھرپورکردار ادا کریں گے اور اس معاملے کو افسر شاہی کی خواہشوں کے حوالے نہیں کریں گے۔ وزیراعظم صاحب ایسا نہ ہو کہ دیرہو جائے!
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔