بلاگ
Time 06 جولائی ، 2022

سیاسی کھلواڑ

ہمارا ایک بنیادی مسئلہ یہ رہا ہے کہ ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے اور باربار انہی غلطیوں کو دہراتے ہیں جن کے نتائج نقصان دہ رہے ۔ آج سے 45؍برس قبل اس وقت کی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بنیادی سیاسی تنازع ’’فری اینڈ فیئر الیکشن‘‘ تھا۔

 ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کا نہ ہونا تھا۔ کل اور آج میں فرق صرف اتنا تھا کہ اس وقت تمام تر تلخیوں اور کشیدگی کے باوجود دونوں فریقوں میں مذاکرات ہوئے اور کامیاب بھی ہوئے مگر پھر بھی 5؍جولائی 1977ء کو ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا جس سے ملک میں ایک نہ ختم ہونے والے سیاسی بحران نے جنم لیا جو تاحال جاری ہے۔ کل بھٹو کہتا تھا کہ مجھے امریکہ نے نکالا، آج عمران خان کہتا ہے، اس پر پھر کبھی…!

آج سیاسی تلخی نے تقریباً دشمنی کی شکل اختیار کرلی ہےاور دونوں فریقوں میں مذاکرات کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا لہٰذا ہر دوسرا فریق یا تو اعلیٰ عدلیہ کی طرف دیکھتا ہے یا ’’ایمپائر‘‘ کی طرف ورنہ تو شاید نہ عدم اعتماد کی تحریک آتی نہ ہی پنجاب میں سیاسی بحران…!جس ملک میں ہم آج تک شفاف الیکشن نہ کرا سکے، ایک آزاد الیکشن کمیشن نہ بنا سکے، وہاں جمہوریت کی جڑیں کمزور سے کمزور ہوتی چلی گئیں۔

 اپنے اپنے مطلب کے نتائج حاصل کرنے اور اقتدار کو طول دینے کیلئے اداروں کو مضبوط اور خود مختار نہ بنایا گیا۔ تاریخ کا ایک اور سبق جو ہم نے آج تک نہیں سیکھا، وہ ہے’’اداروں‘‘ کی غیر ضروری مداخلت اور شاید یہی وجہ ہے کہ باقی دنیا کے مقابلے میں ہمارے ہاں دو تقرریاں ہمیشہ بحث و مباحثے کا حصہ رہی ہیں۔ ایک آرمی چیف کی تقرری اور دوسری آئی ایس آئی چیف کی تقرری! جب ملک میں مارشل لالگتا ہے تو چیف اپنی میعاد میں خود ہی توسیع کرتے رہتے ہیں۔ جب سویلین حکومت ہوتی ہے تو وہ اپنے پسند کے جنرل کو لے کر آتی ہے۔ اس خیال سے کہ وہ ان کیلئے خطرہ نہیں بنے گا۔ 

سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سات جنرلز پر جنرل ضیاء الحق کو ترجیح دی ، گو کہ کہا جاتا ہے اس تقرری میں اردن کے شاہ حسین کا بھی ہاتھ تھا اور یہ بات کسی اور نے نہیں پی پی پی کے معمر ترین سیاستدان کمال اظفر نے چند ماہ پہلے ایک ملاقات میں بتائی تھی پھر ضیا نے نہ صرف بھٹو کا تختہ الٹ دیا بلکہ ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے تختۂ دار پر بھی لٹکا دیا۔ تاریخ سے سبق سیکھا ہوتا تو شاید 12؍اکتوبر 1999ء نہ ہوتا۔ میاں نواز شریف نے پرویز مشرف کو تین جرنیلوں پر ترجیح دی جن میں ایک جنرل علی قلی خان بھی تھے۔

 خیال یہ تھا کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے مگر کیا کریں اس ’’سوچ‘‘ کا جو بار بار اس پر مجبور کرتی ہے۔ مشرف بھی تقریباً وہی کرنے والے تھے جو ضیاء الحق نے بھٹو کے ساتھ کیا تھا۔ نواز شریف کو عمر قید کی سزا ہوئی تو حکومت نے عمر قید کو سزائے موت میں تبدیل کرنے کی اپیل کی مگر پھر سعودی عرب کی مداخلت پر ایک 10؍سالہ معاہدہ کیا ،سیاست میں نہ آنے اور ملک سے باہر رہنے کا! اب وہ بھٹو تو تھے نہیں کہ انکار کردیتے ورنہ تو غلام مصطفیٰ جتوئی یہی فارمولہ لے کر جنرل ضیاء کے پاس گئے تھے اور عرب ملک پناہ دینے کو تیار تھے۔

تاریخ سے سبق ہماری ریاست اور ریاستی اداروں نے بھی نہیں سیکھا۔ بھٹو کو اقتدار سے بے دخل کیا تو ضیاء کا خیال تھا کہ وہ عوام میں غیر مقبول ہیں لہٰذا حزب اختلاف کے اتحاد پاکستان قومی اتحاد کو الیکشن میں کامیابی مل جائے گی ،اسی لئے 90؍روز میں الیکشن کا اعلان کردیا۔ یہاں مارشل لاء لگا اور بھٹو کو رہا کیا گیا تو وہ مقبولیت کے عروج پر نظر آئے جس کے بعد ضیاء الحق کو پی این اے کے بعض رہنمائوں اور دائیں بازو کے صحافیوں اور دانشوروں نے الیکشن ملتوی کرنے کا مشورہ دیا اور پہلے ’’احتساب پھر انتخاب‘‘ کا نعرہ لگا۔ یوں ملک میں 11؍ سال مارشل لاء اس خوف میں لگا رہا کہ پی پی پی جیت جائے گی۔

اس کے بعد سیاست میں اداروں نے اپنے من پسند رہنماؤں کو اوپر لانے، جماعتوں کو بنانے اور توڑنے کا عمل شروع کیا جس کی بڑی واضح اور ناقابلِ تردید مثالیں ہمیں ہر الیکشن میں نظر آتی ہیں۔ چاہے وہ 1988ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کا قیام ہو، 1990ء میں انہی رہنمائوں میں پیسے کی تقسیم ہو، بے نظیر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ہو، آئین میں 58-2(B) کے ذریعے حکومت کا خاتمہ ہو۔ ایک طویل فہرست ہے ’’سیاسی انجینئرنگ‘‘ کی، جس کی کڑیاں 2018ء کے الیکشن تک جاتی ہیں اور اب موجودہ سیاسی بحران بھی جاکر اکتوبر 2021ء میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید کے تبادلے کے تنازع سے جڑا دکھائی دیتا ہے۔ گو کہ اس حوالے سے بہت سی باتیں میڈیا میں آچکی ہیں، عمران خان اس کی تردید کرتے ہیں۔ حالیہ تاریخ میں جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی اور موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت کی معیاد میں توسیع کی گئی۔

آج عمران خان کی زبان میں تلخی کیوں ہے، وہ باربار ’’نیوٹرل‘‘ کی کیوں مخالفت کررہے ہیں؟ وہ دراصل یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں امریکہ کے ساتھ ساتھ ’’نیوٹرلز‘‘ کا بھی کردار ہے۔ دوسری طرف موجودہ حکومتی اتحادی بشمول مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کو خوف رہا کہ اگر نومبر 2022ء سے پہلے عمران حکومت کا خاتمہ نہ کیا گیاتو وہ اپنے پسند کے ’’نیوٹرل‘‘ کو لا کر ان کی سیاست کا خاتمہ کردے گا۔

لہٰذا آج 45؍سال بعد بھی سیاست میں ہم وہیں کھڑے ہیں ،جہاں 1977ء میں تھے۔ کل بھی حکومتوں کا خاتمہ اپنی میعاد پوری ہونے سے پہلے کیا جاتا تھا، آج بھی وہی انداز ہے۔ کل بھی فری اینڈ فیئر الیکشن پر سوالیہ نشان تھا اور آج بھی ہے۔ کل بھی الیکشن ہارنے والے دھاندلی کا الزام لگاتے تھے۔ ’’سیاسی انجینئرنگ‘‘ کی بات کرتے تھے، آج بھی کرتے ہیں۔ کل بھی آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کی تقرری موضوع بحث ہوتی تھی، آج بھی ہے۔ کل بھی عدلیہ نظریۂ ضرورت کا استعمال کرتی تھی، آج بھی کرتی ہے۔ کل بھی الیکشن کمیشن متنازع تھا اور آج بھی ہے۔

ہم نے تاریخ سے دراصل کچھ نہیں سیکھا اور شاید سیکھنے کو اب بھی تیار نہیں۔ وہی غلطیاں باربار دہرائی جاتی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آئین پاکستان کو ہم نے واقعی ایک کاغذی دستاویز کے سوا کچھ نہیں سمجھا۔ اپنے اپنے مطلب کی تشریح کرلیتے ہیں؎

کہاں قاتل بدلتے ہیں فقط چہرے بدلتے ہیں

عجب اپنا سفر ہے فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔