13 جولائی ، 2022
ایک وقت تھا جب پنجاب کی وزارت اعلیٰ ایک کسان کے بیٹے کے نصیب میں آئی مگر شاید وہ سیاسی رومانس کا زمانہ تھا جب ذوالفقار علی بھٹو نے ملک معراج خالد کو نامزد کیا تو پارٹی میں موجود بہت سے جاگیرداروں کو فیصلہ پسند نہ آیا اور انہوں نے اُن کو ناکام بنانے کا فیصلہ کرلیا اور پھر کچھ ایسا ہی ہوا۔یہ 1972ء کی بات ہے ایک سال بعد ہی گورنر پنجاب غلام مصطفیٰ کھر سے اختلاف کے باعث انہوں نے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کرلیا۔ پنجاب اسمبلی آئے تو بہت سے ممبران کی آنکھیں نم تھیں، اُن سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’مجھے اس مسند پر کام کرتے ہوئے لگا کہ ایک انقلابی کو اقتدار نہیں جدوجہد ہی راس آتی ہے‘‘۔؎
تم بھی اچھے رقیب بھی اچھا
میں بُرا تھا میرا نبھا نا ہوا
پنجاب اور پی پی پی کو پھر ایسا وزیر اعلیٰ نہ ملا۔ حنیف رامے دانشور تھے پنجاب کے مزاج کو بھی سمجھتے تھے بعد میں ایک مشہور کتاب ’’پنجاب کا مقدمہ‘‘ بھی لکھی مگر وہ بھی اس مسند پر کامیاب نہ ہوسکے۔ 1977ء میں مارشل لا لگ گیا دو سال بعد بھٹو کو پھانسی دے دی گئی اور پھر ایک منظم پلان کے تحت پنجاب میں پی پی پی کا اثر ختم کرنے کیلئے پارٹی کے اندر اور باہر سے کوشش ہوئیں جو خاصی حد تک کامیاب رہیں اور آج یہ حال ہے کہ پارٹی کوپنجاب میں الیکشن لڑنے کیلئے اُمیدوار نہیں ملتے۔
1993ء میں پی پی پی الیکشن جیتی تو وزارت اعلیٰ ’’لوٹوں‘‘ کی مدد سے میاں منظور وٹو کے نصیب میں آئی۔ معراج خالد سے منظور وٹو تک کا سفر خود بتا رہا ہے پارٹی کے عروج و زوال کی کہانی، اب تو یہ حال ہے کہ پارٹی کو چوہدری پرویز الٰہی ڈپٹی وزیراعظم بھی قبول، وزیراعلیٰ بھی قبول تھا اور اب حمزہ شہباز بھی قبول ہے۔؎
بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے
اب مسلم لیگ (نواز) کی کہانی بھی سُنتے جائیں پھر دیکھتے ہیں عثمان بزدار اور تحریک انصاف کیسے اقتدار میں آئی اور ’’تخت پنجاب‘‘ پر براجمان ہوئی۔ 17جولائی کا نتیجہ تخت یا تختہ والا ہوسکتا ہے مقابلہ حمزہ شہباز اور پرویز الٰہی میں ہے۔
یہ بھٹو کی پھانسی کے بعد کی بات ہے جب ایک ملاقات میں جنرل ضیاء کے دستِ راست پنجاب کے گورنر جنرل غلام جیلانی نے ایوب خان کے زمانے کے ایک بریگیڈیئر عبدالقیوم کے کہنے پر میاں محمد شریف سے ملاقات کی اور اُنہیں سیاست میں آنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا ’’میں تو کاروباری آدمی ہوں ،سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں‘‘ جواب ملا ’’سیاست بھی کریں اور بزنس بھی‘‘۔ اب یہ بات مجھے قابلِ احترام پرویز رشید صاحب نے نہ بتائی ہوتی تو میں نہیں لکھتا۔ بات پُرانی ہے۔ 1985ء کے غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے الیکشن نے مجموعی طور پر پورے ملک کا خاص طور پر پنجاب کی سیاست کا رُخ بدل دیا ،جس سے ملک اور صوبہ ذات پات اور برادریوں میں مزید بٹ گیا۔ یہ ملک سے نظریاتی سیاست کے خاتمہ کی ابتداء تھی۔ ابتدائی طور پر سندھ سے ہی تعلق رکھنے والے محمد خان جونیجو کو وزیراعلیٰ بنایا اور میاں شریف کے بڑے بیٹے میاں نواز شریف کو وزیراعلیٰ پنجاب۔ جب جونیجو میں کچھ ضرورت سے زیادہ سیاسی جراثیم پائے گئے تو اُنہیں فارغ کر دیا گیا۔
1990ء میں بینظیر بھٹو کی حکومت فارغ کی گئی تو طے ہوا کہ نواز شریف تو وزیراعظم ہونگے پنجاب کس کے سپرد کیا جائے۔ کہتے ہیں اُس ملاقات میں میاں صاحب کے ساتھ شہباز شریف، بڑے میاں صاحب اور جنرل جیلانی بھی موجود تھے۔ اُسی میٹنگ میں موجود ایک بیوروکریٹ نے مجھے بتایا کہ ’’مختلف رائے آئیں جب شہباز صاحب کا نام آیا تو بڑے میاں صاحب نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تمہاری کیا رائے ہے۔ میں نے کہا ویسے تو کوئی حرج نہیں مگر شاید یہ سیاسی طور پر درست نہیں ہوگا کہ بڑا بھائی وزیراعظم اور دوسرا وزیراعلیٰ، بات اُنہیں اور جیلانی صاحب کو پسند آئی اور یوں لاٹری غلام حیدر وائیں کی کھل گئی‘‘۔
ملک معراج خالد کی طرح غلام حیدر وائیں بھی سادہ لوح انسان تھے۔ میاں صاحب کی حکومت 1993ء میں فارغ ہوگئی۔ پھر 1997ء کے الیکشن سے پہلے کہتے ہیں ’’تخت پنجاب‘‘ کیلئے چوہدری شجاعت حسین کا نام آیا تھا یا شاید پرویز الٰہی کا۔ مگر جب مسلم لیگ (ن) کو دو تہائی اکثریت ملی تو اس نے شہباز شریف کو وزیراعلیٰ کیلئےنامزد کر دیا اور یوں سیاست میں اُن کا اصل ڈیبیو ہوا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن سمیع اللہ اور کلیم اللہ کی یہ جوڑی پنجاب کی سیاست پر چھائی رہی۔ اور شاید اس وجہ سے اسے ’’تخت ِلاہور‘‘ کا نام دیا جسے 2018ء میں عمران خان نےگرایا۔ مگر 2022ء میں 10اپریل کو عدم اعتماد کی تحریک کے بعد
شہباز شریف تو وزیراعظم بن گئے مگر اُن کو فکر یہ تھی کہ پنجاب میں عثمان بزدار کو کیسے فارغ کیا جائے۔ ویسے تو عمران خان نے موصوف کو وزیراعلیٰ بناکر جو بنیادی غلطی کی تھی اگر یہ اپنی مدت پوری کرتے تو مکمل فارغ ہو جاتے مگر اب عمران کے اُمیدوار چوہدری پرویز الٰہی ہیں۔ وقت وقت کی بات ہے چوہدری صاحب کی وجہ سے عمران خان نے مشرف سے تعلق توڑا آج وہ خود انہیں وزیراعلیٰ دیکھنا چاہتے ہیں۔ سچ پوچھیں توکامیاب اب تک چوہدری ہیں۔ 17جولائی کو دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے ورنہ وہ تو اس وقت کے حکومتی اتحادی کے بھی اُمیدوار تھےاگر ایک نامعلوم ’’کال‘‘ ناآتی۔ اب وہ کس کی تھی اصل تھی یاجعلی۔
حمزہ شہباز اب تک مکمل وزیراعلیٰ نہیں بن سکے۔ کیونکہ ’’تختِ پنجاب‘‘ کیلئےچند سیٹوں کا مارجن کم رہ گیا ہے۔ 25لوٹے بہت ہوتے ہیں کب کس طرف چلے جائیں ،بہرحال حالات پلٹے تو یہ فارغ کر دیئے گئے۔ اب مقابلہ ہے 20ضمنی الیکشن کا ہے۔ پہلی بار مسلم لیگ (ن) کو سخت مشکل کا سامنا ہے کیونکہ عمران خان بہت عرصہ سے جلسے جلوس کر رہے ہیں۔ اُن کا بیانیہ تین بنیادی نکتوں پر ہے۔ (1) مہنگائی (2) امپورٹڈ حکومت اور پنجاب کے لوٹوں کو ہرانا ہے۔ عمران کو پتا ہے کہ ان انتخابات میں شکست ان کیلئے آئندہ عام انتخابات میں مشکلات کھڑی کرسکتی ہے۔
دوسری طرف حمزہ شہباز یا پورے شریف خاندان اور مسلم لیگ (ن) کیلئےشکست کا مطلب حمزہ کی حکومت کا خاتمہ اور آئندہ الیکشن میں مشکل۔ عدم اعتماد سے پہلے مسلم لیگ کا گراف اوپر تھا۔ مسلم لیگ کے پاس واضح برتری تھی۔ وہ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کا ووٹ بینک برقرار ہے، 2018ء میں جیتنے والے آزاد اُمیدوار اب اُن کے ساتھ ہیں لہٰذا کئی برادریاں روایتی اور خاندانی سیاست کو ہی ووٹ دیں گی۔
آج عمران ’’لاڈلہ‘‘ نہیں آج کوئی اور ہے۔ اب آج کا لاڈلہ جیتے یا کل کا۔ ایک جماعت کا ووٹ بھی نتائج پر اثرانداز ہوسکتا ہے اور وہ تحریک لبیک پاکستان ہے جس نے 2018ء میں فیصلہ کن ووٹ لے کر مسلم لیگ کو خاصا نقصان پہنچایا۔ اس بار وہ کس کا ووٹ لے جائیں گے۔
آخر میں یہ الیکشن ’’نیوٹرلز‘‘ کا بھی امتحان ہے اور شاید عمران کو بھی یہ فکر لاحق ہے اور کیوں نا ہو آخر 2018ء کا کرشمہ وہ دیکھ چکے ہیں۔ اب اگر 2022ء میں کپتان نے اس بیانیہ کو شکست دیدی تو پھر سیاست کا پانسہ پلٹ جائے گا ورنہ 2023ء میں ہی الیکشن ہوں گے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔