بلاگ
Time 14 جولائی ، 2022

سب کو اپنی اپنی پڑی ہے!

پاکستان کے حالات کوئی زیادہ اچھے نہیں۔ سچ پوچھیں تو سری لنکا جیسے خطرات ہمارے سر پر بھی منڈلا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی مشکل ترین شرائط تسلیم کر چکے، پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں جس سے مہنگائی منہ زور ہو چکی ہے۔

 اس مہنگائی میں ملک کی اکثریتی غریب آبادی کےلئے پیدا ہونے والے مسائل کا ادراک کرنا بھی مشکل ہے، لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس کے لئےبھی زندگی بوجھ بنتی جا رہی ہے۔ گرانی کی حالیہ لہرنے تو اچھے خاصے آسودہ حال لوگوں کو بھی یہ احساس دلا دیا ہے کہ زندگی پہلے سے مشکل ہو گئی ہے۔ 

گیس بھی مہنگی، بجلی بھی مہنگی اور اشیائے خورونوش بھی جس کے اثرات ابھی آنے والے ہفتوں میں سامنے آئیں گے۔ حکومت نے بجٹ بھی آئی ایم ایف کی شرائط کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بنایا ہے لیکن اس سب کے باوجود ابھی تک آئی ایم ایف کے ساتھ ا سٹاف لیول معاہدہ نہیں ہوا۔

 آئی ایم ایف نہ جانے اب اور کیا شرائط منوانا چاہ رہا ہے اور حکومت کس حد تک دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لئے بلیک میل ہوتی رہے گی؟ بہرحال تمام معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان کو سری لنکا بننے سے بچنے کے لئے آئی ایم ایف کی مدد ہر حال میں درکار ہے۔ اب آئی ایم ایف کی پالیسی کیاہے اور اس پالیسی کو سمجھنے اور اُس کا سمجھداری اور حکمت سے مقابلہ کرنے کے لئے کیا پاکستانی قوم تیار ہے ؟

یقیناً جواب نفی میں ہوگا اوریہ اس پوری صورتِ حال کا افسوس ناک ترین پہلو ہے۔ آج آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو بھی گیا تو پاکستان کا کل پھر بھی غیر محفوظ رہے گا کیوں کہ یہ تو فوری خطرےکو ٹالنے کی کوششیں ہیں۔ پاکستان کے مستقبل کو اگر محفوظ بنانا ہے تو اس کی معیشت کو مضبوط بنائے بغیر ایسا ممکن نہیں، اور معیشت کی مضبوطی کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو جو ہمارے لئے ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔

 سیاستدان ہیں کہ ان کی لڑائیاں ہی ختم نہیں ہورہیں بلکہ اب تو ان لڑائیوں کی نوعیت بھی ایسی ہوچکی ہے کہ جن کی بنیادمیں نفرت اور ایک دوسرے کے لئے عدم برداشت صاف دکھائی دیتی ہے ۔سیاست دانوں میں جاری جنگ اقتدار کے حصول کی ہے اور اس کے لئے جائز ناجائزکی کوئی تمیز نہیں۔ 

کبھی ایک اور کبھی دوسرا اپنے اقتدارکے لئے مقتدر اداروں کی مدد استعمال کرتا ہے۔ جس کو یہ مدد مل جائے وہ خوش اور جسے نہ ملے وہ ناراض ۔ سویلین بالادستی کے جو نعرے لگتے ہیں، وہ محض سیاسی نعرے بازی اور کہنے کی باتیں ہیں۔ اصل کوشش سب کی یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو کس طرح اپنی طرف متوجہ کیا جائے؟ بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی اس کھیل کا حصہ رہی ہے اور یوں بہتری کی بجائے ہمارے حالات اور ہمارا نظام ایک ایسے بگاڑ کا شکار ہو گیا جس کی وجہ سے ہم بد سے بدتر کی طرف سفر کرتے رہے۔ 

آج حالات ایسے ہیں کہ سب کو معلوم ہے کہ ملک سری لنکا جیسے حالات کی طرف بڑھ رہا ہے، ملک اگر دیوالیہ ہونے سے بچ بھی گیا تو تھوڑے عرصہ کے بعد پھر انہی حالات کا سامنا ہو گا لیکن سیاستدانوں کی بے حسی ایسی ہے کہ امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ عمران خان نے پہلے سے موجود سیاسی اختلافات کو دشمنی میں بدلنے میں اہم کردار ادا کیا اور آج وہ پاکستان کے سب سے زیادہ مقبول سیاسی رہنما ہونے کے باوجود جو سیاست کر رہے ہیں وہ معاشرےکی تقسیم کی سیاست ہے۔ عمران خان کی سیاست کا ایک ہی نکتہ ہے کہ میں نہیں تو کوئی بھی نہیں۔

 وہ کہتے ہیں کہ حکومت کرنے کاحق صرف اُنہی کا ہے، باقی سب چور ڈاکو ہیں اور اسی لئے وہ فوج سے توقع رکھے ہوئے ہیں کہ ماضی کی طرح فوج اُن کو حکومت میں لانے اور دوسروں کو اقتدار سے دور رکھنے میں اُن کا ساتھ دے۔ دوسری طرف حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کا اتحاد ہی عمران خان مخالفت میں بنا۔

 پاکستان کی ضرورت ہے کہ یہ دونوں فریق آپس میں بات کریں۔ ملک کا سوچیں، معیشت اور عوام کی حالتِ زار کو دیکھیں لیکن افسوس کے سیاسی نعروں میں تو یہ سب کچھ ہو گالیکن عملاً آپس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ دوریاں ہی پیدا ہو رہی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ سیاسی عدم استحکام ہی ہمارا مقدر رہے گا اور معاشی مشکلات کے حل کے لئے ایک متفقہ چارٹر آف اکانومی کا خواب، خواب ہی رہے گا۔

 فکر ملک کی ہونی چاہئے، خواب یہ دیکھنا چاہئے کہ پاکستان خوشحال ہو لیکن آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ اب میری زندگی کی خواہش ہے کہ ایک بار بلاول بھٹو کو پاکستان کا وزیراعظم بنتا دیکھ لوں۔ عمران خان ،جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ،کے نزدیک پاکستان کی مشکلات کا واحد حل اُن کو دوبارہ وزیراعظم بنانے میں ہے۔ 

وزیراعظم شہباز شریف میثاقِ معیشت پر اتفاقِ رائے کی بات توکرتے ہیں لیکن وہ عمران خان سے بات نہیں کر رہے اور یوں جو سیاسی تقسیم اور نفرت پاکستان اور ملکی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، اُس کے علاج کے لئے کہیں سے کوئی کوشش ہو تی دکھائی نہیں دے رہی ۔ سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔