27 جولائی ، 2022
ملکی سیاست کے د وبڑوں کے 25جولائی کو اخبارات میں شائع ہونے والے دو بیانات پاکستان میں سیاسی ،معاشی ،سماجی واخلاقی زوال کی تصویر کشی کررہے ہیں ۔پی ڈی ایم کے سربراہ مولانافضل الرحمٰن نےکہاہےکہ اداروں کی مداخلت اور سیاست سے ریاست کمزور ہورہی ہے، 3یا5ججز کا فیصلہ انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرے گا، حکومت کو حکومت کرنے دیں۔چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ شریف اور زرداری گٹھ جوڑ نے ملکی معیشت کو تباہ کردیا۔
پنجاب کے عوام کا فیصلہ دیکھ کر یہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں۔قوم ان کی سازشیں ناکام بنادے،عمران خان نے تاہم یہ نہیں بتایا کہ مہنگائی اور دیگر مسائل سے دبے عوام ان سازشوں کوناکام بنانے کیلئے کیا کریں ۔جبکہ حضرت مولانانے اداروں کی سیاست میں مداخلت کی جو بات کی ہے اورکہاہے کہ حکومت کو حکومت کرنے دیں گویا ،حکومت خودمختار نہیں،تو سوال پھر یہ ہے کہ پھر حضرت ایسی حکومت سے کیوں چمٹے ہوئے ہیں ، مستعفی ہوکر اس بے اختیار حکومت سے باہر کیوں نہیں آجاتے،اپنی اتحادی حکومت کی ناکامی کا ملبہ حسب روایت دوسروں پر ڈال کرخود کو بری الزمہ قراردینے کی کوشش کا کیا مطلب۔
یہ سب کچھ جہاں سیاسی عدم استحکام اور زوال کی نشاندہی کررہاہے وہاں یہ بھی ظاہر کررہاہے کہ سیاستدان حکومت میں رہنے کیلئے ہارس ٹریڈنگ سمیت تمام غیراخلاقی ہتھکنڈوںکو بھی سیاست ہی کا حصہ تسلیم کروانے پر مصرہیں۔مجموعی طور پر سیاست کوبیساکھیوں کا محتاج بنانے اور سیاستدانوں کی جانب سے ہر دور میں اس کیلئے ارزاں دستیاب ہونے کی وجہ سے اس ملک کے تمام ادارے نہ صرف یہ کہ ٹوٹ پھوٹ سے دوچارہیں بلکہ عوام کا ان پر سے اعتمادبھی اُٹھتا چلا جا رہا ہے،یہ کھیل جو قیام پاکستان کے فوری بعد اقتدارپرقبضہ اور گرفت رکھنے کیلئے شروع ہوچکا تھا اب پوری آب وتاب سے جاری ہے ۔
تاہم ایک اچھی بات یہ ہے کہ نظام کوعدم استحکام ،سیاست کو گالی بنانے او ر ملکی معیشت کو ذاتی جاگیر سمجھ کر ہارس ٹریڈنگ سمیت تمام غیراخلاقی ہتھکنڈوں کیلئے بروئے کار لانے والے تمام کھلاڑی اب بے نقاب ہورہے ہیں،المیہ مگر یہ ہے کہ عوام تمام امور پر غور وتحقیق کی بجائےپھر بھی ملک کو سیاسی ،معاشی ،سماجی واخلاقی زوال سے دوچارکرنے والے عناصرکے کسی نہ کسی طور نہ صرف یہ کہ احتساب پر غور نہیں کررہے بلکہ انہی کے نعروں اور تقریروںسے متاثر ہوکر ایک دوسرے کوبرداشت کرنے کی تاریخی روایت کو بھی پامال کرنے سے اجتناب نہیں کررہے،اس سے سیاسی وسماجی ہر دو زوال کی جانب پوری قوم بڑی سرعت سے بڑھ رہی ہے۔
کراچی کی حالیہ بلدیاتی انتخابی مہم میں ہم نے دیکھا کہ اُمیدوار وں کے پاس اپنی اہلیت یا پارٹی کی کارکردگی کے حوالے سے کچھ نہیں ہوتا اسلئے وہ مخالفین کی کردارکشی کیلئے وہ زبان استعمال کرتے ہیں جس کی اسلام تو کیا دنیا کا کوئی بھی معاشرہ اجازت دینےکا تصور بھی نہیں کرسکتا۔الغرض مولانا صاحب ہم سے بہتر جانتے ہیں کہ اگر کوئی حکومت کو حکومت کرنے نہیں دے رہاتو اسکی بڑی وجہ بھی اتحادی جماعتیں ہی ہیں جنہوں نے محض وزارتوں اور نیب سے اپنے کیسز چھڑانے کیلئے عام انتخابات کے اعلان کی بجائے ن لیگ کو نام نہاداور خیالی دعووں کے طفیل حکومت کرنے اور اسے قائم رکھنے کیلئے ہر طرح کے کھیل کوروارکھنے پر مجبورکیا،وگرنہ کون نہیں جانتا کہ عدم اعتماد کے فوری بعد ن لیگ جس کا گراف اُس وقت عروج پر تھا انتخابات کرانا چاہتی تھی لیکن یہ زرداری صاحب اور مولانا صاحب ہی ہیں جنہوں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔
لہٰذا اس تناظر میں توکوئی اور نہیں اپنے مفادات کی اسیر اتحادی حکومت میں شامل جماعتیں ہی حکومت کوحکومت کرنے نہیں دے رہیں۔اس دوران البتہ یہ سوال بنتاہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ ممالک میں جمہوری نظام رائج ہے ، اسی جمہوریت کی بدولت اُنہوں نے اتنی ترقی کیسی کرلی ، سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے ساتھ آزادہونے والے بھارت نے اسی مغربی جمہوریت کے ذریعے سیاسی ومعاشی استحکام کیونکرپایا،نیز یہ نظام کیونکر اتنا پائیدار ثابت ہوا کہ وہاں ایک روز کیلئے بھی کسی کو مارشل لالگانے کی جرات نہ ہو سکی۔کیا ہی اچھا ہو کہ عمران خان اور مولاناصاحب سمیت تمام سیاستدان اپنے گریبان میں بھی ذرا جھانکیں کہ وہ جن کو حکومت نہ دینے کا ہر وقت دوش دیتےہیں وہ جب جب بلاتے ہیں تو وہ کیوں ایک دوسرے سے بڑھ کر اُن سے وفاداری کیلئے لپکتے ہیں؟
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ کل تک ن لیگ جن کیخلاف مورچہ لگائے ہوئی تھی آج وہ ان کی سب سے بڑی قصیدہ گو ہے ،اور عمران خان آج جن کیخلاف مورچہ لگائے ہوئے ہیںکل تک وہ ان ہی کے گیت گاتے ہوئے ایک پیج پرہونے کا ذکر بڑے فخر سے کرتے تھے،جہاں ادارے موجودہ سیاسی معاشی ،سماجی واخلاقی زوال کے ذمہ دارہیں وہاں موقع پرسیاست بھی اس بربادی میں اپنے حصے کیلئے کوئی اخلاقی جواز نہیں رکھتی ۔آپ ہی اپنی ادائووں پہ ذرا غور کریں!!
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔