Time 02 اگست ، 2022
بلاگ

پرویز الہٰی اور فرح گوگی۔۔۔تکبر اور آئی۔جی کی شرافت کا علاج

پنجاب کا نظم حکمرانی تبدیل ہوتے ہی کرپشن پر ایمان رکھنے والوں کی جان میں جان آئی اور پولیس اور انتظامیہ کی افسران کے علاوہ ایسے تمام اہم شعبوں کے وہ عناصر جنہوں نے فرح گوگی کے ذریعے "ترقیاں اور عزتیں" خریدی تھیں۔ پھر حرکت میں آ گئے لیکن ان سرکاری حلقوں میں ایک مایوسی غالب ہے کہ پنجاب کا حکمران اب عثمان بزدار نہیں ہے جس پر فرح گوگی اور مانیکا خاندان حکمرانی کرتا تھا۔

اب یہاں کا حکمران پرویز الہٰی ہے جسے اپنے اقتدار میں شرکت کسی قیمت پر کبھی قبول نہیں رہی۔ یہاں تک کہ جنرل پرویر مشرف بھی پرویز الہٰی کے سامنے بے بس نظر آتے تھے۔انہوں نے تو اقتدار کے لئے اپنے بڑے بھائی کو ٹھوکر مار کر پارٹی سیاست سے ہی باہر پھینک دیا جس نے انہیں انگلی پکڑ کر سیاست کی چالاکیاں اور گر سکھائے تھے۔۔وہ کیوں فرح گوگی یامانیکا خاندان کو اس اقتدار میں شامل کر سکتے ہیں جو انہیں کم و پیش 15/16 سال کی ریاضت اور اس موقع کے انتظار کے بعد نصیب ہوا۔

وہ کیوں وزیر اعلیٰ ہاؤس کے لئے بجٹ میں کھانے پینے کی مد میں مختص 9 کروڑ 75 لاکھ روپے کی رقم (جس میں 4 کروڑ 49 لاکھ گروسری، ایک کروڑ 30 لاکھ سی فوڈ، 35 لاکھ سبزی، ایک کروڑ 23 لاکھ مٹن، ایک کروڑ 30 لاکھ چکن، 49 لاکھ بیکری، 81 لاکھ فروٹ ,18 لاکھ ماحول کی تازگی کے لئے پھول اور وی آئی پی کیٹرنگ کے لئے 10 لاکھ روپے) رکھی گئی ہے، فرح گوگی اور مانیکا فیملی کو شامل کر لیں جو عثمان بزدار کے ساڑھے تین سالہ دور میں اربوں روپے بنا کر ایک طرف ہو گئے اور اب ان کے ڈیڑھ سالہ دور پر بھی ان کی نظر ہے۔

عام تاثر ہے کہ فرح گوگی اور مانیکا فیملی کی وزیر اعلیٰ ہاؤس میں دکانیں بند ہو چکی ہیں اور اسی کام کو نئی دکانوں اور نئے دکانداروں کے ساتھ آگے بڑھایا جائے گا۔۔البتہ وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی نے قائد تحریک عمران خان کی خوشنودی کے لئے فرح گوگی اور مانیکا فیملی کے خلاف پنجاب اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے شروع کی جانے والی تحقیقات کو سرد خانے میں ڈالنے کی ہدائت جاری کر دی ہیں جو حکومت پر گرفت مضوط ہونے پر مکمل طور پر ختم کرنے کے عہد و پیمان ہو چکے ہیں لیکن وفاقی حکومت کے زیر انتظام ایف آئی اے کے علاوہ نیب گوگی کی پاکستان واپسی اور 'کاروبار' دوبارہ شروع کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

گوگی اور مانیکا فیملی کی مبینہ کرپشن تحریک انصاف کے چہرے پر کالک تصور کی جارہی جبکہ پارٹی کے اکثر راہنما ان کی کرپشن کا الزام عمران خان کی خواہش کے باوجود اپنے ذمے لینے کے لئے تیار نہیں لیکن فارن فنڈنگ کیس اور اس کا اچانک متوقع فیصلہ حقیقت میں عمران خان کے لئے پریشانی کا باعث ہے جس نے ان کی نیندیں اڑا دی ہیں لیکن قائد نے اپنی کمزوری پر پردہ ڈالنے کے لئے جارحانہ سیاست کی شدت میں نمایاں اضافہ کرتے ہوئے ریاستی اداروں پر حملے شروع کر دئیے ہیں۔ 

بدذبانی، لغو گوئی، الزام تراشی، دھمکی اور تکبر تحریک انصاف کی سیاست کا بنیادی جزو اور محور رہا ہے۔۔قائد تحریک نے خود ان منفی روایات پر عمل پیرا ہو کر پارٹی راہنماؤں اور کارکنوں کی حوصلہ افزائی کی اور گمراہی کے راستے دکھائے۔۔تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ پہلے وہ "شرافت کے موزی مرض" کا علاج کرائیں تاکہ انہیں عملی سیاست کے میدان میں جھوٹ بولنے، بد زبانی کرنے، گالی دینے، بہتان طرازی کرنے، مخالفین کی توہین اور ان کا تمسخر اڑانے اور عمران خان کی مرضی کے خلاف چلنے والے قومی اداروں کی تضحیک کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔۔عمران خان کے مقررہ معیار پر پورا نہ اترنے والا لیڈر ان کی نفرتوں کا نشانہ بنتا ہے اور وہ ایسے لیڈروں کو اپنی صفوں سے نکالنے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں۔۔جبکہ ان "صفات" پر پورا اترنے والا ان محبوب ٹھہرتا ہے اور کوئی کم گو، مہذب، ایماندار، اور سچ پر ایمان رکھنے والے سیاستدان کی اس پارٹی یا گروہ میں کوئی گنجائش نہیں۔

شفقت محمود، شبلی فراز اور عثمان بزدار جیسی کئی مثالیں قوم کے سامنے ہیں۔ محترمہ شیریں مزاری کا شمار انتہائی مہذب، خوشگفتار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔۔لیکن انہیں اپنی ان خوبیوں کی وجہ سے عمران خان کی جانب سے بے رخی محسوس ہوئی تو انہوں نے بھی عمران خان کے مقررہ معیار پر پورا اترنے کی کوشش کی۔۔اگرچہ تمام حکمران ریاست کے ملازمین اور بیوروکریٹس کو اپنا ذاتی ملازم سمجھتے۔۔لیکن عمران خان کی سوچ ان سے کہیں آگے ہے۔

ان کے حکومت میں ہوتے ہوئے تو خیر کسی کی جرأت نہیں کہ وہ ان کی مرضی کے خلاف اپنا کوئی ریاستی اختیار استعمال کر سکے۔ ان کے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی اگر کوئی پولیس یا انتظامی افیسر ان کی طبعیت کے خلاف کوئی حرکت کرے تو یہ اس کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں۔۔جلسوں اور پریس کانفرنسوں ان کا نام لے کر دھمکیاں دیتے ہیں کہ میں حکومت میں آ کر تمہیں نہیں چھوڑوں۔ عمران خان نے ان دھمکیوں پر عمل کرتے ہوئے بے شمار اعلیٰ ایماندار اور قیمتی افیسروں کے مستقبل تباہ کر دئیے۔۔عمران خان کے "مقرب خاص" اور دست راست شہباز گل گزشتہ دنوں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اپنی حیثیت سے بڑھ کر سابق آئی جی پنجاب، راؤ سردار علی خان کی تضحیک کی اور انہیں "شرافت کا علاج" کرانے کا مشورہ دیتے ہوئے حکومت میں آتے ہی انہیں انتقام کا نشانہ بنانے کی دھمکی دی کیونکہ عمران خان کے لانگ مارچ کے اعلان کے نتیجے میں لاہور میں تحریک انصاف کے کارکنوں کے مظاہرے کے دوران شہر میں امن قائم کرنے کے حوالے سے اپنے ریاستی فرائض منصبی نبھانے کی کوشش کی تھی۔ شہباز گل نے اس پولیس افیسر کی سرعام توہین کرتے ہوئے کہا "میں راؤ قبیلے سے درخواست کرتا ہے آپ سب ملکر ایک راؤ سردار آئی جی پنجاب کو خط لکھو اور اسکے نام سے راؤ ہٹائیں، راؤ ایسے کام نہیں کرتے جیسی چولیں (غلطیاں) آپ نے ماری ہیں اور جو آپکے اقتدار میں ماری گئی ہیں اس کی سزا سنے بغیر ابھی آپ بھاگیں نہیں۔ ابھی آپکا محاصرہ ہو گا۔ 

جیسے ہی ہماری حکومت بنتی ہے۔ میں نے اپنی جماعت اور لیڈر شپ سے درخواست کی ہوئی ہے کہ ایک ریزولیشن پاس کریں اور اسے اسمبلی کی کمیٹی کے سامنے بلائیں۔ اسکے اسٹارز اتاریں اسکو بغیر مراعات کے جبری ریٹائرڈ کریں،قانون میں جو جو موجود ہیں وہ اس پراستمعال کریں اور اس پر ایسا رندا پھیرو کہ اس دے اوتے کوئی چیز نہ رکے (پنجابی میں)۔ آئی جی صاحب اپنی شرافت کا کوئی علاج کروائیں جب کوئی حکم آئے پیچھے ہٹ جاتے ہو"۔

راؤ سردار علی خان جو اس وقت آئی۔جی ریلویز ہیں، ایسے حکمرانوں سے اپنی عزت بچانے کے لئے وزارت اعلیٰ کے انتخاب سے قبل ہی اپنا عہدہ اپنی مرضی سے چھوڑ گئے تھے حالانکہ وہ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے پسندیدہ پولیس افیسر تھے اور ان کی ہدائت پر انہیں 6 ستمبر 2021 میں آئی۔جی پنجاب بنایا گیا تھا۔۔لیکن عمران خان نے یہ نہیں سوچا کہ وہ ان کا غلام نہیں، ریاست کا سپاہی ہے۔۔۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔