Time 02 ستمبر ، 2022
بلاگ

سیلاب زدگان کی امداد،چین پیش پیش

فوٹو: جیو نیوز
فوٹو: جیو نیوز

' آئیے احتراماً کھڑے ہوکر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کیجیے'، یہ وہ الفاظ تھے جو پاکستان کے سیلاب زدگان سے اظہار یکجہتی کیلئے کراچی میں چین کے قونصل خانے میں منعقد تقریب کے آغاز کا حصہ تھے۔

ملک کے چاروں صوبوں میں اس ناگہانی آفت سے جاں بحق ایک ہزار سےزائد افراد کی یاد میں ہر شخص سرجھکائے ان لواحقین اور لاکھوں متاثرین کو یاد کرتا رہا جن پر آسمان ٹوٹ پڑا ہے۔

بلوچستان میں سیلاب سے تباہ حال افراد کی دلجوئی کیلئے یہ تقریب ہونا تو کوئٹہ میں تھی مگر چینی سفارتخانے کا بلوچستان میں عملہ پہلے ہی سیلاب زدگان کی امداد میں مصروف ہے ۔ کراچی میں چین کے قونصل جنرل لی بیجیان نہیں چاہتے تھے کہ انہیں زحمت دی جائے۔ اسی لیے سیلاب زدگان سے متعلق یہ تقریب کراچی میں رکھی گئی۔

تقریب میں شرکت کے لیے بلوچستان کے پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر فیصل نسیم بس کے ذریعے کوئٹہ سے 19 گھنٹے میں کراچی پہنچے تھے۔ یہ ایک علامت تھی کہ بلوچستان حکومت اپنے وسائل شاہ خرچیوں پرنہیں بلکہ سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی میں خرچ کرنے میں سنجیدہ ہے ورنہ عام طورپر ایسی تقاریب میں اہلکار یا سیاستدان شرکت کے لیے ہوائی سفر کو ترجیع دیتے ہیں۔

میٹالرجیکل کارپوریشن آف چائنا کے پاکستان میں صدر ہو زوپنگ نے اس موقع پر بلوچستان میں سیلاب زدگان کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالر امداد کا چیک فیصل نسیم کو دیا، میٹالرجیکل کارپوریشن آف چائنا چین کے منمیٹلز گروپ کے براہ راست زیر انتظام ہے۔ ایم سی سی کے منصوبوں میں سیندیک اور  ڈاڈر شامل ہیں۔

ہوزوپنگ نے کہا کہ بلوچستان میں انفراسٹرکچر پہلے ہی خراب حالت میں تھا اور اب ان طوفانی بارشوں اور سیلاب نے تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں، ایسے میں چینی کمپنیاں اپنا یہ فرض سمجھتی ہیں کہ وہ پاکستانی عوام کو اس آفت کا مقابلہ کرنے اور اپنے وطن کی تعمیر نو میں ہر ممکن معاونت کریں۔

ہوزوپنگ نے بتایا کہ سیلاب نے پاکستان میں چینی منصوبوں کو بھی بری طرح نقصان پہنچایا ہے جس سے پیداواری عمل متاثر ہے لیکن سیلاب کتنا ہی بے رحم کیوں نہ ہو، یہ ایک ایسے دیرینہ، قریبی اور سچے دوست کی مدد سے چینی کمپنیوں کو دور نہیں کرسکتا،جو آج مشکل سے دوچار ہیں۔ خوشی کے لمحات میں ساتھ دوست غم میں برابر کے شریک نہ ہوں تو دوستی سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے اونچی ٹہرے گی ہی کیسے؟

چین کا یہ رویہ یکطرفہ نہیں۔ سن 2008 میں جب چین کے علاقے وینچواں میں زلزلہ آیا تھا تو پاکستان نے اپنے تمام تر ٹینٹ متاثرین کی مدد کے لیے بھیج دیے تھے۔

چین کے قونصل جنرل لی بیجیان نے بتایا کہ صدرشی نے اپنے پاکستانی ہم منصب صدر عارف علوی، وزیراعظم لی کیچیانگ نے شہباز شریف اور وزیرخارجہ وانگ یی نے بلاول بھٹو سے رابطہ کرکے انہیں حالیہ سیلاب سے متاثر افراد کی امداد اور بحالی میں ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کے سماجی تعاون سے متعلق فریم ورک کے تحت چین پہلے ہی 4 ہزار ٹینٹ، 50 ہزار کمبل اور دیگر امدادی سامان پاکستان کو فراہم کرچکا ہے ۔تباہ کن حالات سے نمٹنے کے لیے مزید 25  ہزار ٹینٹ اور دیگر سامان بھی جلد بھیجا جارہا ہے۔ یہ سامان چین کی فضائیہ وائی ٹوئنٹی کارگو طیاروں کی مدد سے پہنچا رہی ہے اور چین کی ریڈ کراس سوسائٹی پاکستان میں ہلال احمر کو 3 لاکھ ڈالر کیش کی صورت میں فراہم کرے گی جبکہ آل پاکستان چائنیز انٹرپرائزز ایسوسی ایشن وزیراعظم کے فلڈ ریلیف فنڈ میں ڈیڑھ کروڑ روپے عطیہ کرچکی ہے۔

پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر فیصل نسیم نے کہا کہ چین نہ صرف سیلاب زدگان کی امداد میں پیش پیش ہے بلکہ اس سے پہلے کورونا وبا سے نمٹنے میں بھی بیجنگ نے بلوچستان کا آگے بڑھ کر ساتھ دیا تھا۔ یہی نہیں چینی منصوبوں کے ذریعے بلوچستان میں روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہورہے ہیں جن سے لوگوں کی زندگیاں بہتر کرنے میں مدد مل رہی ہے۔

فیصل نسیم نے کہا کہ سندھ سے جڑے نصیرآباد، جعفرآباد اور جھل مگسی سمیت چار شہر اور دوسری جانب ژوب، زیارت، کوئٹہ، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ اور پشین زیادہ متاثر ہیں، بعض دیگر شہروں اور اضلاع کو بھی نقصان پہنچا ہے مگر بلوچستان کے کئی شہر اس ناگہانی آفت سے محفوظ رہے ہیں۔

سیلاب زدگان کی امداد کے لیے بنیادی اشیا اور انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے نقد رقم کا مختلف ممالک سے فراہم کیا جانا پاکستان پر اعتماد اور پاکستانیوں سے ہمدردی کا اظہار سہی لیکن جس بڑے پیمانے پر سندھ اور بلوچستان میں سیلاب سے تباہی ہوئی ہے،عالمی برادری کو ایک قدم آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

آئی ایم ایف سے قرض کی قسط لے کر شہباز حکومت نے معیشت کی ڈولتی نبضیں تو سنبھال لی ہیں مگر انفرا سٹرکچر کی تعمیر نو ایسا چیلنج ہے جس سے فوری طور پر نمٹنا تقریباً ناممکن ہے۔

ابتدائی تخمینے کے مطابق بارشوں اور سیلاب سے ملک میں 10 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے ۔ اسے پورا کرنے کے لیے کچھ نئے طریقے آزمانا ہوں گے، کیوں نہ ٹوٹے ڈیمز،پلوں اور شاہراہوں کی تعمیر میں ان ممالک کو شامل کیا جائے جو امداد میں پیش پیش ہیں، ہر ملک کو انفرادی طورپر پراجیکٹ پیش کے جائیں تاکہ وہ اپنے عوام کو بھی دکھاسکیں کہ رقم کہاں اورکیسے خرچ کی گئی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔