09 ستمبر ، 2022
کراچی کے علاقے کورنگی کے پارک سے ملنے والی خاتون کی لاش کے معاملے میں پولیس نے کئی کوتاہیاں کیں، پوسٹ مارٹم یا کیمیکل ایگزامینیشن کرانا ضروری نہ سمجھا، خود ہی فرض کرلیا کہ خاتون نشے کی عادی تھی اس لیے موت نشے کی زیادتی کی وجہ سے ہوئی ہے۔
کراچی کے علاقے کورنگی نمبر4سے یکم ستمبر کو رخصانہ عرف عائشہ کی لاش فٹبال اسٹیڈیم سے ملی جس کی اطلاع چھیپا ویلفیئر کے ریسکیو اہلکاروں کو ملی جو پہلے لاش کو زمان ٹاؤن تھانے لے گئے۔
پولیس نے امانتاً لاش کو چھیپا ویلفیئر کے سردخانے میں رکھوادیا اور بتایا کہ خاتون نشے کی عادی ہونے کے علاوہ گردوں کے سنگین مرض میں بھی مبتلا تھی۔
پولیس کے مطابق خاتون کی ہلاکت بھی نشے کی زیادتی کی وجہ سے ہوئی۔ یہاں پولیس کی جانب سےسنگین غفلتیں سامنے آئیں۔ پولیس حکام کے مطابق ہلاک خاتون کے جسم پر تشدد کے کوئی نشانات موجود نہیں تھے جس پر یہ تصور کر لیا گیا کہ اس کی موت طبعی تھی۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی خاتون اہلکار نے اس کی لاش کا معائنہ کیا؟ کیا موت کی وجہ جاننے کیلئے لاش کا کیمیکل ایگزامینیشن کرایا گیا؟
ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ پوسٹ مارٹم میں 2 ہزار روپے تک لگتے ہیں تو شاید ڈیوٹی افسر نے یہ پیسے بچائے، عمومی طور پر شہر سے نشے کے عادی افراد کی لاشیں ملتی ہیں لیکن ماضی قریب میں کسی خاتون کی ایسی لاش ملنے پر پولیس حکام سمیت میڈیکو لیگل حکام بھی کہتے ہیں کہ اس طرح سے خاتون کی لاش ملنا انہونی سی بات تھی، پھر بھی پولیس قیادت نے پوسٹ مارٹم نہیں کروایا۔
گزشتہ اتوارکو اس لاش کو لے کر سوشل میڈیا پر واویلا کیا جاتا رہا لیکن پھر بھی پوسٹ مارٹم کروانے کے بجائے لاش کو ورثا کے حوالے کردیا گیا۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس غفلت پر کوئی ایکشن لیا گیا یا پھر ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ؟