بلاگ
Time 14 ستمبر ، 2022

’ریاست بمقابلہ سیاست‘، اک مکالمہ

ریاست:کیسے ہیں آپ لوگ ،سیاست کیسی چل رہی ہے؟

سیاست :جی شکریہ، ویسے تو سب ٹھیک ہے بس آپ کے لاڈلے نے پریشان کیا ہوا ہے۔

ریاست:سب ٹھیک ہو جائے گا، لاڈلا بھی مان جائے گا، آخر آپ بھی تو ہمارے لاڈلے ہیں، آپ بھی تو ناراض ہو کر چلے جاتے ہیں یا کبھی ہم ناراض ہو جاتے ہیں،مگر پھر مان کر آپ واپس آ جاتے ہیں۔

سیاست:اب آپ ہمارا مقابلہ اس سے تو نہ کریں، اس کو سیاست کا کیا پتا۔

ریاست :دیکھیں اب یہ نہ کہیں آخر آپ بھی تو شروع میں کچھ ایسے ہی تھے، یاد ہے جب ایک بڑے ناراض لاڈلے کے مقابلے میں ہم نے آپ کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔ دیکھیں یہ جو آپ کا نام ہے نا’’ سیاست‘‘ یہ سب ہمارا ہی دیا ہوا ہے۔ آپ لوگ جب زیادہ لڑنا جھگڑنا شروع کر دیتے ہیں، تو پھر ہمیں کچھ سختی کرنی پڑتی ہے۔

سیاست:مگر یہ کھیل تماشاآخر آپ کرتے کیوں ہیں، ہم سب ایک گھر کے فرد ہیں آپس میں لڑتے بھی ہیں،برداشت بھی کرتے ہیں پھر بات چیت کے ذریعے مسئلے کو حل کر لیتے ہیں، اس میں اگر آپ ڈوریاں کھینچنے لگتے ہیں تو معاملہ بگڑ جاتا ہے۔

ریاست :اب سارا الزام ہم کو نہ دیں ورنہ گیٹ نمبر4کے رجسٹر پر سارے نام لکھے ہیں۔

سیاست:ہمارا کوئی گیٹ نہیں، آپ جب چاہیں آئیں ،دن کے اجالے میں یا رات کے اندھیرے میں ۔دن میں زیادہ بہتر ہوتا ہے، رات کو خطرہ یہ ہوتا ہے کہ آپ ہمیں نکال کر گھر پر قبضہ نہ کرلیں اور پھر ایک نئے لاڈلے کو لے آئیں۔

ریاست:یار، یہ نئے لاڈلے سے پریشان کیوں ہیں آپ لوگ، اب سیاست میں وہ آپ سے آگے نکل گیا ہے تو ہمارا کیا قصور، ابھی تو ہماری اور اس کی ناراضی چل رہی ہے، تھوڑا غصے اور زبان پر قابو پائے گا، تو ہم اسے آئس کریم پیش کریں گے،ابھی تو آپ لوگ مزے کریں۔

سیاست:لیکن آپ لوگوں نے طے کیا ہوا ہےکہ گڈے گڑیا کا کھیل جاری رکھیںگے۔

ریاست:کیا کریں آپ لوگ بڑے ہو کر ہی نہیں دیتے، ذرا سی ڈھیل دی تو آپے سے باہر ہو جاتے ہیں پھر ہم کچھ بولتے ہیں تو آپ ’ڈیل‘ پر آجاتے ہیں۔ یہ لاڈلا بھی آپ کی غلط کاریوں کی دین ہے۔

سیاست:مطلب آپ نے نظام کو نہیں چلنے دینا ،مداخلت کرتے رہنا ہے۔

ریاست:جب ہم نیوٹرل ہوتے ہیں تو ہمیں ’جانور‘ کہہ دیتا ہے لاڈلا، کبھی آپ لوگ بھی تو کیا کچھ نہیں کہتے تھے۔ سیاست آپ بھی کرتے ہیں وہ بھی، آتے ہمارے پاس ہی ہیں۔

سیاست:اب اوپر سے نیچے تک،دائیں اور بائیں آپ ہی ہوں گے تو جائیں گے کہاں، مگر یہ سب آپ کا کام نہیں ہے۔ جو آپ کا کام ہے وہ کریں اور اس میں ہم سب آپ کے ساتھ ہیں، یہ ’’مائنس ون‘‘،وغیرہ ،وغیرہ چھوڑیں، اس چکر میں ایک کو پھانسی ہو گئی، آدھاملک ٹوٹ گیا، کوئی جلا وطن ہوا تو کوئی سازش کی نذر۔

ریاست:ارے، ارے، آپ تو جذباتی ہو گئے، بھائی کچھ غلطیاں ہم سے اور کچھ آپ سے ہوئیں ،دونوں طرف سے اعتراف ہو گا تو بات آگے بڑھے گی، یک طرفہ ٹریفک نہ چلائیں۔

سیاست:بات جذباتی ہونے کی نہیں، آئین پاکستان نے حدود کا تعین کیا ہوا ہے، اب آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو غصہ آتا ہے تو پورے آئین کو ہی معطل یا ختم کر دیتے ہیں۔ ایسے میں جب ہم آئینی اصطلاح میں اسے غداری کہتے ہیں تو الٹا آپ ہمیں غداری یا بغاو ت میں ملوث کر دیتے ہیں۔

ریاست:ملک ٹوٹنے کی افسوسناک کہانی الگ ہے، ان کے ساتھ پہلے دن سے ہم سب نے زیادتی کی، ناانصافی کی، سچ تو یہ ہے کہ وہ ہمارے ساتھ رہنا چاہتے تھے ہم مگر بحیثیت قوم ان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے تھے۔

سیاست:چلیں اچھا آپ نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا، وہ تو ہم سے بھی غلطی ہوئی ،قیام پاکستان سے لے کر ان کی علیحدگی تک یہاں کی اشرافیہ نے انہیں قبول نہیں کیا، رہی سہی کسر ون یونٹ اور پہلے اور دوسرے مارشل لا نے پوری کر دی۔

ریاست1977:میں کیا ہوا تھا ،آپ ہی کے بھائی بندوں نے دعوت دی۔

سیاست:ہم لڑیں جھگڑیں یہ ہمارا معاملہ ہے، 1977میں بھی ہم لڑنے کے بعد بیٹھ گئے تھے اور حل بھی نکال لیا تھا مگر آپ نے تو ذہن بنا لیا تھا اور پھر آپ تو آپ ہو ایک بار آتے ہو تو جانے کا نام ہی نہیں لیتے۔ اس وقت بھی 90 روز کے لئے آئے تھے، پورا گھر ہی اجاڑ دیا مکین بھی مکان بھی۔

ریاست:ہاں یہ اس وقت کے لوگوں کی غلطی تھی الیکشن کراتے اور واپس آ جاتے،ان برسوں میں جو ہوا اس سے سب کو نقصان ہوا، اب آگے بڑھنا چاہئے ہم سب کو، غلطیوں سے سبق سیکھ کر۔

سیاست:دیکھیں غلطیاں ہم سے بھی ہوئی ہیں ،ہمارے بہت سے لوگ حکومت میں آئے تو وہ حکومت اچھی نہ کر سکے، کرپشن کے بھی سنگین الزام لگے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک دوسرے کو گرانے کیلئے آپ کے ساتھ مل کر سازشیں کیں ،آخری نتیجہ یہ نکلا کہ دو بڑے رہنما مائنس کر دیئے گئے۔ مگر وہاں پھر وہی ہوا آپ لوگ 12 اکتوبر 99 کو آئے تو جانے کا نام ہی نہیں لیتےتھے۔

ریاست:اس واقعہ میں بھی بڑی غلطی آپ کی ہے، ان کا تقرر آپ کے ہی ایک صاحب نے کیا تھا ناں؟ انہوں نے ویسے جتنی تقرریاں کیں بعد میں محاذ آرائی بھی انہی سے کی۔

سیاست:مگر اختیار تو انہی کا تھا، اب دیکھیں ،بغاوت ، غداری یا آئین شکنی کہہ لیں کس نے کی، مگر سزا کسے ملی، عمر قید کی سزا کس کو ہوئی، آئین توڑنے والے کو یا آئین کے مطابق فیصلہ کرنے والے کو۔

ریاست:ڈیل تو آپ نے کی، یا یوں کہیں آپ کے ایک صاحب نے اور ہم نے انہیں10سال کیلئے باہر بھیج دیا۔پھر وہ واپس آئے اور ایک بارپھر وزیر اعظم بھی بنے۔ اب وہ نا اہل ہو گئے اور عدالت نے سزا دے دی تو ہمارا کیا قصور۔

سیاست:کیا کہنے آپ کے، یعنی چٹ بھی آپ کا پٹ بھی آپکا۔ یہاں تو جناب بعض اوقات منصف بھی آپ کے ہوتے ہیں، اور ترازو بھی آپ کے ہاتھ میں۔

ریاست:دیکھیں اب آپ کی انہی باتوں کی وجہ سے کسی لاڈلے کو لانا پڑتا ہے، پر مصیبت یہ ہے کہ وہ ناراض ہوتا ہے تو آپ لوگوں جیسی حرکتیں کرنے لگتا ہے، ہم کسی کو ’’مائنس‘ کرنے نہیں جا رہے، یہ ان کا اور عدلیہ کا معاملہ ہے، ہمارا کام ریاست بچانا ہے سیاست بچانا نہیں، ہم تو ’’نیوٹرل‘‘ ہیں اب۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔