Time 17 ستمبر ، 2022
پاکستان

عمران خان کی حالیہ ملاقاتوں سے لیکر ن لیگ میں بڑھتی ہوئی تقسیم تک

عمران خان ’’پروجیکٹ‘‘ سے اسٹیبلشمٹ کو سخت سبق سیکھنا چاہئے اور سیاست سے دور رہ کر اپنی ماضی کی غلطی کو نہیں دہرانا چاہیے۔ فوٹو فائل
 عمران خان ’’پروجیکٹ‘‘ سے اسٹیبلشمٹ کو سخت سبق سیکھنا چاہئے اور سیاست سے دور رہ کر اپنی ماضی کی غلطی کو نہیں دہرانا چاہیے۔ فوٹو فائل

سوشل میڈیا کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان اضطراب کی کیفیت میں جو کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں حالیہ ملاقاتوں کے باجود وہ حاصل نہیں کرسکیں گے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے کوئی اعلیٰ کار کردگی نہیں دکھائی بلکہ اپنی پارٹی میں کئی ایک کو مایوس بھی کیا لیکن عمران خان کی خواہشات کے مطابق فوری عام انتخابات سے ملک کی اقتصادی حالت مزید بد تر ہو جائے گی۔

پس منظر میں ہونے والی بات چیت کے مطابق صدر عارف علوی کو اس بات کا ادراک ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت کے لیے ایک چھت کے نیچے بیٹھنا کس قدر اہم ہے اور یہ کہ آپس میں مل بیٹھ کر ملک کی اقتصادیات اور آئندہ انتخابات پر غور کریں تاہم سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ یہ کہ عمران خان کو مل بیٹھنے پر کس طرح آمادہ کیا جائے۔

صدر عارف علوی کو خود تحریک انصاف کے اندر بھر پور حمایت حاصل ہے۔ تاکہ وہ عمران خان کو حکمران اتحاد کے ساتھ مکالمے پر باور کرا سکیں جو حکومت سے اقتصادیات پر باتیں کرنے کے لیے آمادہ ہی نہیں ہیں۔ جو ملکی ترجیحات میں سر فہرست ہے۔ ان دنوں عمران خان یہ کہتے چلے آتے ہیں کہ ملک کی مثبت اقتصادیات کا تعلق سیاسی استحکام سے ہے۔ جبکہ سیاسی استحکام کے لیے فوری انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے۔

آگے بڑھنے کا یہ ایک مثبت طریقہ ہے لیکن دیگر ان کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے اقتدار سے محروم کئے جانے کے بعد عمران خان کی تمام تر توجہ حکمران اتحاد کو اقتدار سے محروم کرنے کے لیے فوجی اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالنے اور قبل از وقت انتخابات کرانے پر ہے تاکہ وہ اقتدار میں واپس آ سکیں۔

موجودہ حکومت کے ابتدائی ہفتوں میں قبل از وقت انتخابات کا امکان تھا اور کچھ قوتیں بھی اس بارے میں سنجیدہ تھیں لیکن بعد ازاں عمران خان کی جارحانہ پالیسی اور تحریک انصاف کی سوشل میڈیا پر منفی مہم غیر موثر اور نقصان دہ ثابت ہوئی۔ عمران خان یہ بات نہیں سمجھتے کہ اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود انہوں نے اثر انداز ہونے والی قوتوں کا اعتماد کھو دیا ہے۔ جو ان کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔

عمران خان ناقابل بھروسہ اور خطرناک بن گئے ہیں۔ اگر یہ سمجھا جائے کہ شہباز گل کا بیان سرخ لائن عبور کرچکا ہے تو شوکت ترین کا بیان نتہائی بغاوت میں آتا ہے۔ عمران خان نے آئندہ آرمی چیف کے انتخاب کے معاملے کو اپنے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے سیاست زدہ کیا۔ اس پس منظر میں وہ اسٹیبلشمٹنٹ کو دعوت دے رہے ہیں وہ اقتدار میں واپس آنے کے لئے ان کی مدد کو آئے۔

ذرائع کا کہنا ہے عمران خان ’’پروجیکٹ‘‘ سے اسٹیبلشمٹ کو سخت سبق سیکھنا چاہئے اور سیاست سے دور رہ کر اپنی ماضی کی غلطی کو نہیں دہرانا چاہئے۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ وہ ماضی کی طرح کی غلطیاں دہرائیں جس کے لئے اسٹیبلشمنٹ آمادہ نہیں ہے۔ نومبر میں اسٹیبلشمنٹ میں کلیدی تبدیلی کا امکان ہے لیکن غیر جانبدار انہ پالیسی کا تسلسل بھی متوقع ہے۔

اپنے دباؤ کے حربے آزمانے کے بعد اب عمران خان شہباز شریف حکومت کو ہٹانے کے لئے سیاسی پنجہ آزمائی پر تلے ہیں لیکن یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے کہ اپنی عوامی مقبولیت اور اسٹریٹ پاور کے باوجود وہ حکومت کو ہٹانہ سکیں گے۔ 

دریں اثنا مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں تبدیلی کی توقع ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ پرویزالٰہی کی حکومت تو برقرار رہے گی لیکن اسے تحریک انصاف کے بجائے مسلم لیگ (ن) کی سپورٹ مل جائے گی۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ خود مسلم لیگ (ن) تقسیم کے عمل کا شکار ہے۔ ایک گروہ کی قیادت وزیراعظم شہباز شریف اور دوسرے کی سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم اور اسحاق ڈار کر رہے ہیں۔ 

دوسری جانب مختلف سیاسی جماعتیں اور ان میں قائم کیمپس اپنے مذموم سیاسی مفاد کے حصول میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ملک کی اقتصادی صورتحال بڑی نازک ہے آزاد مبصرین کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ ملک کی سیاسی قیادت کو کس طرح یکجا اور اکٹھا کیا جاسکتا ہے اور کون یہ کرسکے گا۔ تاکہ وہ مل بیٹھ کر اقتصادی اور انتخابات پر غور و فکر کرسکیں۔

نوٹ: یہ خبر آج 17 ستمبر کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی ہے

مزید خبریں :