18 ستمبر ، 2022
پاکستان میں سیاستدان الیکشن الیکشن کھیل رہے ہیں یا بعض کو آرمی چیف کی تعیناتی یا عہدے میں توسیع کی فکر ستارہی ہے مگر یہ دونوں ہی وہ باتیں ہیں جو سیلاب متاثرین کے سامنے کی جائیں تو یہ ان کے زخموں پرنمک پاشی کے مترادف ہوگا۔
یہ مصیبت کا وہ لمحہ ہے جب پاکستان کو عالمی ضمیرجھنجوڑنےاور ترقی یافتہ ممالک کواپنے کیے کا خمیازہ بھگتنے پر آمادہ کرنےکی ضرورت ہے۔
یہاں نوبت یہ ہے کہ پاکستان میں سیلاب متاثرین کا معاملہ بھی سیاست کی نذر کیا جا رہا ہے تاہم امریکا کی ریاست نیوجرسی میں پاک امریکا دوستی کے 75 برس مکمل ہونے کی مناسبت سے تقریب پاکستان میں سیلاب متاثرین کی حالت زار پر اظہار افسوس اور بحالی کے اقدامات میں تبدیل ہوگئی۔
امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کےچیئرمین باب میننڈیز مہمان خصوصی تھے، سفیر پاکستان مسعود خان اور نیویارک میں پاکستان کی قونصل جنرل عائشہ علی بھی یہاں موجود تھیں۔
سینیٹر باب میننڈیز نے اسلام علیکم کہہ کر کہا کہ وہ آئے تو قیام پاکستان کی سالگرہ پر مبارکباد دینے تھے مگر خوشیاں بدترین سیلاب نے مانند کردی ہیں۔ اور یہ جانوں کے نقصان پر افسوس کالمحہ بن گیا ہے کیونکہ اس وقت 3 کروڑپاکستانی متاثرہیں۔
باب میننڈیز نے کہا کہ امریکا نے ابھی 2کروڑ ڈالر اور اس سے پہلے 3کروڑامداد کا وعدہ کیا ہے مگر یہ ایک قطرے سے زیادہ نہیں کیونکہ سیلاب سے 30 ارب ڈالر نقصان ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انٹرنیشنل ڈونرز کانفرنس کا انعقادکیا جانا چاہیے تاکہ دنیا پاکستان کی مدد کے لیے آگے بڑھ سکے، ساتھ ہی امریکا کی جانب سے بھی ڈیزاسٹرپیکیج دیاجاناچاہیے، آئی ایم ایف کی طرف سےبھی پاکستان کومزید ریلیف ملنا چاہیے۔
انہوں نے بائیڈن حکومت پر زور دیا کہ امریکا میں مقیم پاکستانیوں کو عارضی تحفظ کا درجہ دیا جائے تاکہ جو پاکستانی وطن واپس نہیں جا سکتے وہ یہاں قیام کر سکیں، ماضی میں یہ درجہ یوکرین اور بعض صورتوں میں افغانوں کو بھی دیا گیا تھا اور اب وہ پاکستان کا یہ مقدمہ خود صدر بائیڈن کے سامنے پیش کریں گے تاکہ اس وقت پاکستان پراضافی بوجھ نہ پڑے۔
سفیر پاکستان مسعود خان نے کہا کہ پاکستان میں اصل چیلنج سیلاب متاثرین کی بحالی ہوگا۔ اس میں پاکستان کو کئی سالوں تک امریکا کی مسلسل مدد درکار ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی تباہ کاریوں سے دنیا کو محفوظ رکھنے کے لیے عالمی سطح پر حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔
پاک امریکا تعلقات اورپاکستان میں سیلاب کی صورتحال پراس تقریب کااہتمام امریکن پاکستانی پبلک افئیرز کمیٹی کی جانب سے کیا گیا تھا جس کے چیئرمین ڈاکٹر اعجاز احمد نے شرکا کو بتایا کہ سیلاب سے تباہی کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ یوکرین جنگ کے مقابلے میں پاکستان میں سیلاب سے 6 گنا زیادہ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
اسے یوں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ آسٹریلیا کی تمام ترآبادی سے زیادہ پاکستانی سیلاب کے سبب گھر چھوڑ چکے ہیں۔
اراکین کانگریس شیلا جیکسن اور ٹام سوازی کے ساتھ پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کا ذکر کرتےہوئے ڈاکٹراعجاز نے کہا کہ سزاوار نہ ہونےکے باوجود پاکستان گلوبل وارمنگ کی قیمت اپنی جانوں سے چکا رہا ہے۔
تقریب میں سیلاب متاثرین کے لیے 11 ملین ڈالر امداد فراہم کرنے کا بھی اعلان کیاگیا اور مقررین نے توقع ظاہر کی کہ اراکین کانگریس اور پاکستانی امریکن کمیونٹی سیلاب زدگان کی امداد میں سب سے آگے ہوں گے۔