26 ستمبر ، 2022
مریم نواز اور وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان ہونے والی گفتگو جس کا لیکس کے طور پر پراپیگنڈا کیا جارہا ہے اس وقت کی عمران خان کی کنفیوز حکومتی پالیسی کے بارے میں ہے، یہ پالیسی 2020 میں نافذ کی گئی تھی۔
اس آڈیو کا کوئی منفی اثر نہیں ہوگا کیوں کہ یہ قانون کے دائرے کے اندر ہے۔
مریم نواز شریف کے قریبی ذرائع نے اتوار کے روز جنگ کو بتایا کہ پاور پلانٹ کی درآمد پر 2020 میں ابہام تھا، یہ پاور پلانٹ تکیمل کے آخری مرحلے میں تھا اس وقت پابندی عائد کی گئی تھی۔
یہ مبینہ آڈیو لیک کوئی معنی نہیں رکھتی کیوں کہ اس میں دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو قانون اور ضوابط کے خلاف نہیں تھی۔ یہ تاثر کہ مریم نواز شریف اپنے داماد کیلئے فیور مانگ رہی تھی تاہم یہ بات بھی فضول ہے کیوں کہ ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے۔
تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ مریم نواز شریف نے حکومت کو کہا کہ وہ اپنے داماد کی کمپنی کو انڈین پاور پلانٹ درآمد کرنے کی اجازت دی جائے تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس پاور پلانٹ کا 60 فیصد کام انڈین درآمدات پر پابندی سے پہلے ہی مکمل ہوچکا تھا۔
سوشل میڈیا پر جاری مبینہ آڈیو لیک میں معاملے کی مکمل تصویر بھی نہیں دکھائی گئی۔
اسی اثناء کمپنی کے ذرائع نے نمائندے کو بتایا کہ وہ حکومت کی پوزیشن کا مکمل احترام کرتے ہیں اور بقیہ پراجیکٹ چین سے مشینری درآمد کرکے مکمل کیا جائے جس سے کمپنی پر ایک ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ دیگر پاور پلانٹ جو دیگر کمپنیوں کے زیر استعمال تھیں ان کی مشنری بھارت سے درآمد کی گئی تھی۔ اسی لئے اس معاملے پر حکومت سے وضاحت مانگنا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔
(یہ خبر 26 ستمبر کو روزنامہ جنگ کے اخبار میں شائع ہوئی )