03 اکتوبر ، 2022
پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ساتویں ٹی ٹوئنٹی میں گیم چینجر کا کردار ادا کرنے والے انگلش بیٹر ڈاوڈ ملان کا کہنا ہے کہ اننگز میں پاکستان کی جانب سے کیچز ڈراپ کرنے کی وجہ سے پارٹنرشپ بنانے کا موقع مل گیا، وکٹ اچھی تھی لیکن دیکھ کر اندازہ ہوگیا تھا کہ یہاں پر 160 یا 170 رنز کا ہدف کافی نہیں ہوگا۔
قذافی اسٹیڈیم لاہور میں جیو نیوز کے سیگمنٹ گیم چینجر میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاوڈ ملان نے کہا کہ وکٹ ان کی نظر میں زبردست تھی جس میں ابتدا میں کافی اچھا گیند بیٹ پر آرہا تھا، انگلینڈ کی ٹیم خوش قسمت بھی رہی کہ اس کو کچھ چانسز ملے، کیچز ڈراپ ہونے کی وجہ سے انگلینڈ کو پارٹنرشپ بنانے کا موقع ملا جس نے بڑا ٹوٹل لگانے میں مدد کی ۔
واضح رہے کہ پاکستان نے انگلینڈ کی اننگز میں تین کیچز ڈراپ کیے جس میں سے 2 ڈاوڈ ملان اور ایک ہیری بروک کا تھا، دونوں نے اس سے فائدہ اٹھاکر 61 گیندو پر 108 رنز کی شراکت بنائی۔
ان کا کہنا تھا کہ جب وکٹ کو دیکھا تو اندازہ ہوگیا تھا کہ اس پر بڑا ٹوٹل کرنا ہوگا، 160 یا 170 کافی نہیں ہوگا، کیوں کہ بعد میں اوس بھی پڑسکتی تھی اس لیے چانس لیا اور زیادہ سے زیادہ اسکور کرنے کی کوشش کی جس میں کامیابی ملی۔
انہوں نے کہا کہ ہر ٹیم ٹی ٹوئنٹی میں اپنے انداز سے کھیلتی ہے، کسی کو ٹھیک یا غلط نہیں کہا جاسکتا، ہم سے پچھلے میچز میں غلطیاں ہوئیں لیکن آج معاملات ہمارے حق میں بہتر رہے۔
جب ان سے انگلینڈ کی بیٹنگ میں جارح مزاجی کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ مثبت کرکٹ کھیلیں، ٹیم کا کلچر یہی ہے کہ کنڈیشن کو دیکھ کر بیٹنگ کریں، اگر وکٹ دو سو کا ہے تو اس حساب سے اسٹرائیک ریٹ رکھیں، اگر 140 کا ہدف ہے تو اس کو عبور کرنے کا پلان رکھیں۔
انہوں نے کہا کہ انگلینڈ کیلئے ٹی ٹوئنٹی کھیلنا چیلنج ہے کیوں کہ وائٹ بال پلیئرز میں مقابلہ ہے، ہمیں زبردست اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ بیٹنگ کرنا ضروری ہے اور میچز جتوانا اہم ہے، 60،70 رنز کرکے میچ ہارنا کوئی نہیں چاہے گا، ہمارے لیے اہم ہے کہ ہم اسکور کرکے ٹیم کو میچ جتوائیں۔
ایک سوال پر ڈاوڈ ملان نے کہا کہ پی ایس ایل کھیل کر اندازہ ہوا تھا کہ یہاں وکٹ کیسی ہوں گی، اس سے مدد ملی، انہوں نے کہا کہ بطور ٹیم رکن آپ رن کریں یا نہ کریں اہم بات یہ ہے کہ آپ گروپ میں کردار ادا کریں اور چیزیں سیکھیں، ایک چیز جو مورگن کے دور میں ٹیم میں آئی اور اب بٹلر کی قیادت میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے کہ ہم ایک دوسرے سے معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں اور ہم بطور ٹیم بہتر ہونے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ ٹرافیاں اور زیادہ سے زیادہ میچز جیت سکیں۔
ڈاوڈ ملان 2017 میں لاہور میں پی ایس ایل کا فائنل کھیلنے والی پشاور زلمی ٹیم کا حصہ تھے، اس فائنل کے بعد پاکستان میں کرکٹ کی واپسی کا سلسلہ شروع ہوا اور آج دنیا کی ہر ٹیم پاکستان کا رخ کررہی ہے۔
ڈاوڈ ملان کا کہنا ہے کہ انہیں فخر ہے کہ انہوں نے یہاں کرکٹ کی بحالی میں اپنا کردار ادا کیا۔ 6 سال قبل سوچا نہیں تھا کہ 4 یا 8 پلیئرز کے آنے سے پاکستان میں چیزیں ڈرامائی انداز میں تبدیل ہوں گی۔
انہوں نے ساتھ ساتھ پی سی بی اور سکیورٹی کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے ، ملان کے مطابق، پاکستان میں بہترین انتظامات کیے اور ہر کسی کو محفوظ محسوس کرایا۔
کراچی اور لاہور میں تماشائیوں اور فل ہاؤس میچز کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاوڈ ملان نے کہا کہ ہم بھارت میں بڑے کراؤڈ کو دیکھنے کے عادی تھے اور اب یہاں بھی ایسا ہی جنون دیکھ رہے ہیں جو بہت زبردست بات ہے،یہ ناقابل یقین بات ہے کہ ہر میچ ہاؤس فل اور تماشائی بابر اور رضوان کیلئے نعرے لگاتے رہے، جس نے کافی پرجوش کیا یہ بہت زبردست تجربہ رہا۔