دنیا
Time 04 اکتوبر ، 2022

ٹرانس جینڈر اشو : پاکستان بمقابلہ امریکا

فوٹو: رابرٹ زیمرمین اور جارج سانتوس
فوٹو: رابرٹ زیمرمین اور جارج سانتوس 

پاکستان میں ٹرانس جینڈرز کے حقوق پر قوم کتنی ہی منقسم ہو، امریکی تاریخ میں پہلی بار ایک ایسا انتخابی حلقہ بھی سامنے آیا ہےجہاں کانگریس کے دونوں بڑے امیدوار خود کو برملا ایل جی بی ٹی کیو ( لیسبیئن، گے، بائی سیکشوئل، ٹرانس جینڈرز اور کوئر)کہلاتے والی شخصیات ہیں، یوں تو ان دونوں میں صرف یہی وہ واحد عنصر مماثلت کا سبب ہے ورنہ حریف جماعتوں سے تعلق کی وجہ سے ان کے نظریات یکسر مختلف ہیں۔

ڈیموکریٹ رابرٹ زیمرمین اور ری پبلکن جارج سانتوس نیویارک کے تھرڈ کانگریشنل ڈسٹرکٹ سے قسمت آزما رہے ہیں جہاں پاکستانی کمیونٹی کی بھی نمایاں تعداد آباد ہے۔ یہ نشست ان ڈیموکریٹ رکن کانگریس ٹام سوازی نے خالی کی ہے جو حال ہی میں پاکستان آئے تھے اور سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد وعدہ کیا تھا کہ وہ کانگریس کی جانب سے پاکستان کی امداد بڑھانے کے لیے ہر ممکن تعاون کریں گے۔

امریکا میں ایل جی بی ٹی کیو ہونا عیب نہیں، تاہم ری پبلکنز کے مقابلے میں ڈیموکریٹس ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کی حمایت میں زیادہ مؤثر آواز بلند کرتے رہے ہیں۔

ڈیموکریٹس کی جانب سے ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کی طرفداری کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت کانگریس میں خود کو برملا ایل جی بی ٹی کیو تسلیم کرنے والے جو 11 اراکین ہیں، ان تمام ہی کا تعلق ڈیموکریٹ پارٹی سے ہے۔

یہی نہیں 2020 میں امریکا کے صدارتی الیکشن کی دوڑ میں جن ڈیموکریٹ پیٹ بڈاجج نے حصہ لیا تھا وہ بھی کھلے عام خود کو گے کہتے ہیں۔ جو بائیڈن جیسے حریف کے مقابلے میں وہ صدارتی الیکشن کے لیے پارٹی ٹکٹ تو نہیں لے پائے تھے مگر بڈاجج کی حمایت میں بھی پاکستانی کمیونٹی پیچھے نہیں رہی تھی۔

ری پبلکنز جنہیں کنزریٹو تصور کیاجاتا ہے، اس کمیونٹی کو نمائندگی دینے میں بہت پیچھے ہیں۔

امریکا میں مڈٹرم انتخابات نومبر کی8  تاریخ کو ہو رہے ہیں جن میں ایل جی بی ٹی کیو یعنی لیسبیئن، گے، بائی سیکشوئل، ٹرانس جینڈرز اور کوئر کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار95 امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ 2020 میں یہ تعداد ایک ہزار 20تھی۔

جہاں تک کانگریشنل ڈسٹرکٹ تھرڈ کا تعلق ہے جہاں سے زیمرمین اور سانتوس آمنے سامنے ہیں، صدارتی الیکشن کے موقع پر جوبائیڈن نے اس ڈسٹرکٹ میں 10 پوائنٹس کی برتری حاصل کی تھی۔ نیویارک لاکھ ڈونلڈ ٹرمپ کی ریاست سہی مگر یہاں لوگوں کی بڑی تعداد ڈیموکریٹس نظریات کی حامل ہے اور یہی وجہ ہے کہ سانتوس کے مقابلے میں زیمرمین کے جیتنے کے امکانات بھی زیادہ ہیں۔ ویسے بھی سانتوس پچھلی بار ٹام سوازی کے خلاف الیکشن جیتنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔

بحرحال اس بار سانتوس جیتیں یا زیمرمین دونوں صورتوں ہی میں امریکا میں نئی تاریخ رقم ہوگی ، تاہم ڈیموکریٹ رابرٹ زیمرمین نے پاکستانیوں کو کئی سہانے سپنے دکھائے ہیں۔

فوٹو:نسیم حیدر
فوٹو:نسیم حیدر

رابرٹ زیمرمین نے امریکن پاکستانی پبلک افیئرز کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر اعجاز احمد کی جانب سے منعقد فنڈریزنگ ڈنر میں چند روزپہلے ہی شرکت کی تھی۔ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے زیمرمین نے یقین دلایا تھا کہ وہ پاکستان کا دورہ کرنے کے لیے اپنی حلف برداری کا انتظار نہیں کریں گے۔ 

یہی نہیں زیمرمین نے وعدہ کیا کہ اگر وہ جیتے تو کانگریشنل اسٹاف میں پاکستانیوں کو بھی شامل کریں گے تاکہ وہ بھی امریکی سیاست کو نہ صرف قریب سے دیکھیں بلکہ اس کا حصہ بن سکیں۔

امریکا میں تقریباً 12 لاکھ پاکستانی آباد ہیں تاہم ابھی تک کوئی ایک بھی کانگریس کا رکن بننے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ برطانیہ میں تقریباً اتنی ہی تعداد میں آزاد کشمیر اورپاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے رہتے ہیں مگر وہاں پارلیمنٹ میں ایک درجن برٹش پاکستانی اراکین ہیں۔

دونوں ملکوں میں پاکستانیوں کے سیاسی طور پر فعال ہونے یا نہ ہونے کی وجوہات کا ذکر پھر ہوگا مگر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ امریکا میں آباد پاکستانی اب سیاسی طور پر زیادہ باشعور ہیں۔ نہ صرف کونسلر اور میئر کی سطح پر بلکہ ریاستی اسمبلیوں کی سطح پر بھی پاکستانی منتخب ہوچکے ہیں۔

اب انہیں اس بات کا بھی شدت سے احساس ہے کہ کمیونٹی کو چھوٹے موٹے مسئلوں میں الجھنے کے بجائے بڑا ہدف سامنے رکھنا چاہیے ، ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ 2020 کے صدارتی الیکشن کا نتیجہ بھارتی پس منظر سے تعلق رکھنے والی کملا ہیرس کے نائب صدر بننے کی صورت میں نکلا ہے اور یہ ایک ایسا عہدہ ہے جو صدر بننے کا الیکشن لڑنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔

مزید خبریں :