بلاگ
Time 31 اکتوبر ، 2022

’’ کان کھول کر سن لو‘‘

کتناعرصہ عمران خان کو کبھی کنٹینر پر چڑھے، کبھی جلسوں میں خطاب کرتے ہوئے پولیس افسران، سول سرکاری اہلکاروں اورایک آدھ بار ایک خاتون جج کو بھی للکارتے دیکھا۔ کسی کو کہا میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا، کسی کے خلاف ایکشن لینے کی بات کی۔ کسی کو’’اوے ‘‘کر کے پکارا تو کسی کے خلاف اس سے بھی زیادہ سخت زبان استعمال کی۔

 یہ سب کچھ 2014 کے دھرنے کےوقت سے دیکھا جا رہا ہے لیکن اب تو خان نے تمام حدیں پار کردی ہیں ۔ اب تو فوج کے اعلیٰ افسران کے نام لے لے کراُنہیں نشانے پر رکھ لیا ہے۔ اور تو اور ڈی جی آئی ایس آئی جیسے اعلیٰ ترین فوجی افسر کو کہہ ڈالا ’’کان کھول کر سن لو‘‘۔ آئی ایس آئی کے ایک میجر جنرل کا نام لے کر اُسے’’ ڈرٹی ہیری‘‘ کہہ دیا، ایک بریگیڈیئر کا بھی نام لے کر انہیں نشانہ بنایا۔ گویا عمران خان خطرناک نہیں بلکہ بہت خطرناک ہو چکےہیں۔ وہ بہت غصےمیں ہیں اور اُنہیں اپنے غصےپر کوئی قابو نہیں۔

 حیرانی کی بات یہ ہے کہ اُن کے آس پاس کھڑے تحریک انصاف کے بڑے بڑے رہنمااس دوران ہنس رہے ہوتے ہیں۔ اپنے غصے میں عمران خان عوام کو کیا پیغام دے رہے ہیں، اُنہیں شاید اس کے نتائج کا علم نہیں۔ پہلے تو وہ فوج کو نیوٹرل کہہ کہہ کر اُس کا مذاق اُڑاتے رہے، کہتے رہے کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے ، پہلے نام لیے بغیر فوج اور آئی ایس آئی کی اعلیٰ ترین قیادت کو میر جعفر اور میر صادق کے بُرے خطابات سے نوازتے رہے، اُن پر الزام لگاتے رہے کہ اُنہو ں نے امریکی سازش کے ذریعے پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے لیے ہینڈلر کا کردار ادا کیا۔ 

گزشتہ کئی مہینوں سے تحریک انصاف سوشل میڈیا کے ذریعے فوج اور آئی ایس آئی کی اعلیٰ قیادت اور دفاعی اداروں کے خلاف گھٹیا مہم چلاتی رہی ،جس پر عمران خان نے ایک بار بھی نہ اپنی سوشل میڈیا ٹیم کی مذمت کی نہ ہی کسی کے خلاف ایکشن لیا۔ ارشد شریف کے سانحہ کے بعد تو تمام حدیں پار کرتے ہوئے بغیر ثبوت کے صرف اپنے جھوٹے بیانیے کو مضبوط بنانے اور سیاست چمکانے کے لیے اپنے ہی اداروں پر انگلی اُٹھا دی ۔

 تحریک انصاف کے چند ایک رہنماؤں اور پی ٹی آئی سوشل کے میڈیا نے جو کسررہ گئی تھی وہ بھی نکال دی اور ایک ایسا ماحول بنا دیا کہ جیسے ارشد شریف کا قتل تو کیا ہی ہمارے اداروں نے ہے۔ عمران خان کو اس بات کا بالکل احساس نہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ اپنی مقبولیت کے نشے میں وہ یہ سوچنے اور سمجھنے سے قاصر ہو چکے کہ وہ اپنے طرز عمل سے فوج کو کس طرح اور کس قدر نقصان پہنچا رہے ہیں۔

 وہ کہتے ہیں کہ میں فوج کے ادارے کو کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتا لیکن جلسوں ،جلوسوں اور اپنے انٹرویوز میں وہ جو کچھ فوج کے متعلق کہہ رہے ہیں، اُس نے اُن کے ووٹروں ،سپوٹروں اور فالورز کے ذہنوں میں فوج کے خلاف وہ نفرت بھرنا شروع کر دی ہے جس نفرت کا بیج وہ سیاست میں بو چکے ہیں ۔ پہلے سیاست کی بنیاد پر معاشرے میں نفرت بھری ، تقسیم پیدا کی اور اب فوج اور عوام میں ویسی ہی تقسیم پیدا کی جا رہی ہے۔ 

عمران خان سمجھیں، سوچیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ اگر وہ ایسا خود کرنے سے قاصر ہیں تو اسد عمر، فواد چوہدری، شفقت محمود، شاہ محمود قریشی اور دوسرے کئی رہنما جو عمران خان کی خطرناک باتوں پر جلسوں اور جلوسوں میں اُن کے ساتھ کھڑے ہو کے ہنس رہے ہوتے وہی کچھ خیال کریں کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ یہ سب کتنا خطرناک ہے اور اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ ؟کیا یہ سب کچھ کر کے عمران خان کامیاب ہو جائیں گے۔

 دو دن پہلے اسد عمر کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوے سنا کہ فوری الیکشن کروائو ۔ پھر کہنے لگے کہ اگلا ووٹ تو عمران خان کا ہے (یعنی آئندہ الیکشن تو عمران خان ہی جیتے گا) اور اگر الیکشن کرانے میں دیر کر دی تو پھر نقصان پاکستان کا ہو گا ،تحریک انصاف کا کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ کوئی پوچھے کہ پاکستان کا نقصان ہو تو وہ کیسے کسی سیاسی جماعت کا نقصان نہیں ہو گا۔؟ اسد عمر جب سیاست میں آئے تھے تو سمجھا جاتا تھا کہ سیاست میں ایک بہترین پڑھے لکھے شخص کی انٹری ہوئی ہے لیکن اسد عمر کو سن کر افسوس ہوا۔ 

تحریک انصاف میں اب بھی ایسے لوگ ہیں جو عمران خان کی باتوں سے سخت تکلیف میں ہیں اور وہ اس لیے کہ کہیں خدانخواستہ واقعی پاکستان کانقصان نہ ہو جائے۔ تحریک انصاف کے ایسے رہنمائوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ خان صاحب کو سمجھائیں کہ خدارا پاکستان پر رحم کریں اور اتنا آگے نہ نکل جائیں کہ پاکستان، اس کے اداروں اور نظام کے مستقبل کے بارے میں سوال اُٹھنا شروع ہو جائیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔