’سیاست میں مداخلت‘

کل 03 نومبر ہے۔ آج سے 15 سال پہلے 2007 میں پہلی بار اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس نے ’انکار‘ کیا تو ایک ایسی تحریک نے جنم لیا جس میں نہ صرف وکیل، صحافی، سول سوسائٹی بلکہ خود حاضر ججز بھی شریک تھے۔ 

9 اپریل،2007 کو شروع ہونے والی اس غیر معمولی تحریک کو روکنے کیلئے اس وقت کے فوجی آمر اور سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے 03 نومبر کو ایک بار پھر ماورائے آئین اقدام اٹھا کر اپنی ہی ایک اصطلاح ’ایمرجنسی پلس‘ نافذ کرکے نہ صرف ججز کو نظربند کردیا بلکہ میڈیا پر بھی پابندی لگا دی۔ 1983کی تحریک بحالی جمہوریت کے بعد آزاد عدلیہ کی تحریک چلی۔ 

1983 کی تحریک اس لئے منفرد تھی کہ اس میں اس وقت کے آمر جنرل ضیا الحق کے خلاف پہلی بار آمریت سے لڑائی شہروں میں نہیں دیہات میں لڑی گئی۔ سندھ میں کئی سو لوگ مارے گئے۔ فوجی آمریت کے خلاف یہ بھر پور احتجاج تھا جس نے وقت کے آمر کو پہلے اپنے لئے جعلی ریفرنڈم اور پھر غیر جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات پر مجبور کیا۔ 

اس سے پہلے جنرل ایوب اور پھر سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریکوں کا انجام مارشل لا کی صورت میں سامنے آیا۔ اگر ایم آر ڈی قائم رہتی اور 1988کے انتخابات میںایک پلیٹ فارم سے جنرل (ر) حمید گل کے بنائے ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد سے مقابلہ کرتی تو آج شاید صورتحال بہت مختلف ہوتی۔ 

یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد نہ صرف سیاست میں مداخلت میں اضافہ ہوا اور سیاست دان باہم دست و گریباں رہے بلکہ ہوس اقتدار کی خاطر طاقتور حلقوں کے آلہ کار بھی بنتے چلے گئے۔ 

کوئی کہتا میرا تو براہ راست تعلق GHQ سے ہے تو کوئی گیٹ نمبر4 کے گن گاتا۔ نتیجے میں مداخلت کرنے والے ہی مذاکرات کرواتے رہے۔  ایک کو گرانے کیلئے دوسرے کو استعمال کرتے، شاید یہی وجہ ہے کہ نہ صرف سیاست میں مداخلت بڑھی بلکہ خود سویلین حکمرانوں نے انتظامی معاملات میں سیاسی مداخلت کر کے نہ صرف خراب گورننس کی افسوسناک مثالیں قائم کیںبلکہ پولیس، انتظامیہ یہاں تک کہ عدلیہ کو بھی سیاست زدہ کر کے تباہ کر دیا اور یوں ’کرپشن‘ خوب پروان چڑھی، نظریات اور سیاست کہیں پیچھے رہ گئے۔

2006 میں ’میثاق جمہوریت‘ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی ایک یادداشت تھی مگر ابھی اس کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ ایک بار پھر سیاسی قیادت نے آمر سے NRO لے لیا مگر جب 2007 میں الیکشن ہونے ہی والے تھے تو ملک کی مقبول ترین رہنما سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔

آج کل پھر لوگ سڑکوں پر ہیں ایک سیاسی حقیقت عمران خان فوری طور پر عام انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اب اگر میں ان کو لاڈلا کہوں، سلیکٹڈ کہوں تو بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ ہمارا ماضی ایسے لاڈلوں سے بھرا پڑا ہےلیکن اگر یہ بات وزیراعظم شہباز شریف یا ان کے بڑے بھائی کریں تو آپ سب کو جنرل ضیا یا جنرل جیلانی یاد نہیں آتے۔ 

اب مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان جو بھی ہے اس کی مقبولیت صرف سڑکوں اور سوشل میڈیا پر ہی نہیں بلکہ ضمنی الیکشن میں بھی صاف نظر آ ئی ہے۔ اگر مارچ 2022 کو سیاسی اکابرعدم اعتماد کی تحریک لانے کی سیاسی غلطی نہ کرتے تو 2021 کے سروے بتا رہے تھے کہ سابقہ حکومت مسلسل غیر مقبول ہو رہی ہے۔ اگر اس وقت کے وزیراعظم اور اعلیٰ عسکری قیادت کے درمیان اختلافات میں پی ڈی ایم استعمال ہوگئی۔ اس نے ’سائفر‘ کا ڈرامہ کیا ہو یا قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے کر سیاسی غلطی، مگر پچھلے 6 ماہ سے سیاست اسی کے گرد گھوم رہی ہے۔

ہمارے کچھ تجزیہ کار اور دانشور یہ سمجھ بیٹھے کہ ایک غیر معمولی ’پریس کانفرنس‘ میں یہ اعلان کہ اب ادارہ کی سطح پر یہ فیصلہ ہو گیا ہے کہ کوئی ’سیاست میں مداخلت‘ نہیں ہوگی، نے عمران خان کا کھیل ختم کر دیا ہے۔ اگر ایسا ہو بھی جائے تو کیا پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو مٹا کر آپ جمہوریت مضبوط کریں گے۔ اب ذرا شادیانے بجانے والےیہ بھی بتا دیں کہ ’عدم مداخلت‘ کے اعلان کے بعد پس پردہ بات چیت کس سے چل رہی ہے۔ ایوان صدر میں کیا ہو رہا ہے اور بازی پلٹ گئی تو آپ کیا کریں گے۔ ایک صاحب تو لندن کیا گئے واپس آنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ پہلے 2000میں گئے تو 2007 میں آئے۔ (جاری ہے)

مزید خبریں :