بلاگ
Time 03 نومبر ، 2022

عمران خان کا دشمن؟

عمران خان کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں وہ اپنا نقصان کرنے کیلئے خود ہی کافی ہیں۔

عمران خان کے مخالفوں نے ان کے ساتھ سب سے بڑی ہمدردی یہ کی کہ ان کی انتہائی نامقبول حکومت کو ختم کر کے خود اقتدار سنبھال لیا اور حالات پہلے سے بدتر ہوگئے، مہنگائی بڑھ گئی، ڈالر بہت مہنگا ہو گیا، معیشت مزید زوال پذیر ہوگئی۔

ایک طرف اتحادیوں کی حکومت میں آنے سے اُن کو کافی سیاسی نقصان ہوا تو دوسری طرف عمران خان نے جھوٹ پر مبنی امریکی سازش کا ایسا بیانیہ بنایاکہ اُن کی مقبولیت کی یہ حالت ہو گئی کہ جہاں جلسہ کرتے بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو جاتے، جو ضمنی الیکشن ہوئے اُن میں تحریک انصاف ہی بہت بڑی تعداد میں کامیاب ہوئی۔

گویا مقبولیت کے لحاظ سے یہ واضح ہو گیا کہ جب بھی الیکشن ہوتے ہیں عمران خان اور تحریک انصاف کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔

اتحادی حکومت کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے، معیشت کی حالت اتنی خراب ہے کہ کوئی معجزہ ہی اُنہیں حکومت میں رہ کر اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت دوبارہ دلوا سکتا ہے۔ خاص طور پر اس چیلنج کا ن لیگ کو سامنا ہے۔

ایسے میں جب سب کچھ عمران خان کی اپنی حکومت کی تمام تر نااہلیوں اور ناکامیوں کے باوجود اُن کے حق میں جا رہا تھا اور وہ عوامی طور پر بے حد مقبول بھی ہوگئے تو اُنہوں نے فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھلی جنگ شروع کر دی۔

ایسی ایسی باتیں اپنے جلسوں، جلوسوں اور ٹی وی انٹرویوز میں اداروں کے خلاف کرنے لگے کہ بھارت میں اُن کی تعریفیں ہونے لگیں۔ چند ایک بھارتیوں نے تو عمران خان اور تحریک انصاف کو چندہ تک دینے کی باتیں شروع کر دیں تاکہ عمران خان اپنی ہی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف حملوں کو جاری رکھ سکیں۔

ایک ریٹائرڈ بھارتی میجر جو اپنے یو ٹیوب چینل میں پاکستان کے خلاف زہر اُگلتا رہتا ہے، وہ تو یہ بھی کہہ چکا کہ عمران خان نے اپنی فوج اور آئی ایس آئی کو جتنا نقصان پہنچایا وہ تو بھارت اربوں ڈالر خرچ کر کے بھی نہیں کر سکتا تھا۔

عمران خان کہتے تو ہیں کہ اُنہیں پاکستان کی فوج سے محبت ہے، کیوں کہ یہ فوج پاکستان کی سالمیت اور دفاع کے لیے لازم ہے لیکن جو کچھ وہ، اُن کی جماعت اور اُن کا سوشل میڈیا اپنے دفاعی اداروں کے ساتھ کر چکے اور کر رہے ہیں وہ واقعی کوئی دشمن بھی نہیں کر سکتا تھا۔

گزشتہ چھ مہینوں کے دوران فوج اور اُس کی ہائی کمانڈ کے خلاف جس جس طرح کی سوشل میڈیا کیمپین چلائی گئی اُس کی کوئی نظیر نہیں ملتی اور حال ہی میں تو حد ہی ہو گئی کہ بغیر ثبوت کے اپنی ہی فوج پر کینیا میں ہلاک ہونے والے صحافی ارشد شریف کے قتل کا پر الزام لگا دیا۔

عمران خان کی سیاسی تاریخ کو دیکھیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ جس کو اپنا مخالف سمجھ لیں اُس پر کسی بھی قسم کا الزام لگانے میں دیر نہیں کرتے۔ لیکن مجھے حیرانی اس بات پر ہے کہ اُن کا یہی رویہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے اور وہ اس لیے کہ اُن کے مطابق اسٹیبلشمنٹ اُن کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کو ناکام بنوا سکتی تھی لیکن اُنہیں نے ایسا نہیں کیا۔

خان صاحب اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنے الزمات اور دھمکیوں میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ فوج اور آئی ایس آئی پر دباؤ بڑھا کر جلد الیکشن کے لیے رستہ نکال سکتے ہیں۔

خان صاحب کی اپنی سوچ ہے لیکن میری ذاتی رائے میں اُنہوں نے اداروں کےساتھ جس خطرناک ٹکراؤکی پالیسی اپنائی ہے اس کا اُن کو سیاسی طور پر نقصان ہی ہوگا فائدہ کسی صورت نہیں ہوسکتا۔

ایک سیاسی رہنما اگر بہت مقبول ہو اور اُس کی پارٹی ضمنی انتخابات بھی بڑی اکثریت سے جیت رہی ہو تو اُسے کیا ضرورت پڑی تھی کہ فوج اور آئی ایس آئی سے ایسی لڑائی مول لے جس سے اُسے سراسر سیاسی نقصان کا ہی خدشہ ہے۔

ایسے رویے سے صرف اُس رہنما کے اپنے ووٹرز اور سپورٹرز یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ کیا اس سیاست سے پاکستان اور اس کے اہم ترین دفاعی اداروں کا نقصان تو نہیں ہو رہا۔

اس کے ساتھ ساتھ عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے اس دباؤ کے ذریعے جو توقع کیے بیٹھے ہیں اُس کا نہ صرف یہ کہ پورا ہونا ناممکن نظر آتا ہے بلکہ وہ مستقبل کیلئے بھی اسٹیبلشمنٹ کا اعتبار کھو رہے ہیں۔ جو کچھ عمران خان نے اپنی سیاست چمکانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کیا وہ ادارے کبھی نہیں بھول سکتے۔

خان کو چاہیے تھا کہ اپنے تعلقات اور معاملات کواسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہتر بناتے بجائے اس کے کہ ان تعلقات کو اتنا خراب کر دیتے کہ اپنی سیاست کے ساتھ ساتھ اداروں اور عوام کے درمیان تعلقات کو شدید نقصان پہنچا دیا۔

ابھی خان کو یہ باتیں سمجھ نہیں آئیں گی لیکن کچھ وقت گزرنے دیں بعد میں وہ یہی کہیں گے کہ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔