16 نومبر ، 2022
سندھ پولیس میں 38 سال خدمات سرانجام دینے والے سینیئر پولیس افسر اور ماہر تفتیش کار الطاف حسین گذشتہ روز ریٹائر ہوگئے، وہ ایک طوطے سے تفتیش کرکے دوہرے قتل کا سراغ لگانے کے واقعے کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔
سابق سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس الطاف حسین نے 1984 میں بطور اسسٹنٹ سب انسپکٹر سندھ پولیس جوائن کی اور 12 نومبر بروز ہفتہ ان کی پولیس میں خدمات کا آخری دن تھا۔
اس روز سرکاری چھٹی ہونے کے باوجود وہ بعض رکے ہوئے معاملات نمٹانے کیلئے اپنی آخری پوسٹنگ ایس ایس پی انویسٹی گیشن ایسٹ کراچی کے دفتر میں موجود تھے۔
ملازمت کے دوران کچھ کرنے کی جستجو یا خواہشات اکثر لوگوں کے دل میں رہ جاتی ہیں مگر الطاف حسین کی ایسی کوئی خواہش باقی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اپنی سروس کے 38 سال مکمل کرکے انہیں کوئی افسوس نہیں اور کوئی ایسی خواہش باقی نہیں ہے جو وہ پوری نہ کر سکے ہوں۔
الطاف حسین کا کہنا ہے کہ پولیس کی وجہ سے انہیں نام، عزت اور شہرت کے ساتھ ساتھ چار بار ملک سے باہر مشنز میں خدمات انجام دینے کے عوض دولت بھی ملی۔
انہوں نے کہا کہ وہ ملازمت کے عرصے میں اپنے افسران کے معیار پر پورا اترتے رہے۔ ملازمت میں وہ کبھی معطل نہیں ہوئے، کبھی کوئی بڑی سزا نہیں ملی اور ان کی سروس شیٹ میں کوئی ریڈ انٹری نہیں ہے۔
الطاف حسین نے کہا کہ اسی وجہ سے وہ ہمیشہ پرائم پوسٹنگ پر رہے اور فیلڈ کی نوکری کی۔
انہوں نے کہا وہ بڑے فخر کے ساتھ اپنے محکمے کو الوداع کہہ رہے ہیں اور انہیں کوئی ملال نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ شہر کے اہم تھانوں میں ایس ایچ او رہے، اہم علاقوں میں بطور ڈی ایس پی خدمات سر انجام دیں اور ایس پی کے طور پر بھی نمایاں کارکردگی رہی۔
الطاف حسین نے اپنی پولیس کی نوکری کے دوران کے کئی دلچسپ واقعات بھی سنائے جن میں قابل ذکر ان کی ایس ڈی پی او سرجانی ٹاؤن میں تعیناتی کے دوران سال 2007 میں دوہرے قتل کا واقعہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سرجانی ٹاؤن میں ان دنوں تعمیر نو بینک کے جواں سال آفیسر اور ان کی اہلیہ کی خودکشی کا واقعہ رپورٹ ہوا تھا۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی وہ حسب سابق خود جائے وقوع پر پہنچے اور تفتیش شروع کی۔
الطاف حسین کے مطابق جوان العمر میاں بیوی کی لاشیں بیڈ پر پڑی ملی تھیں، دونوں کی کنپٹی پر گولیوں کے نشان تھے اور ساتھ میں ایک پرچے پر خودکشی کرنے کی وجہ کی تحریر بھی موجود تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش میں ہی انہوں نے دیکھا کہ سیدھے ہاتھ سے کام کرنے والے بینک آفیسر کے الٹے ہاتھ پہ کنپٹی پر گولی لگی تھی جس پر انہیں شبہ ہوا۔ وہ ماحول کا جائزہ لینے کیلئے گھر میں ادھر ادھر گھومنے لگے کہ اچانک انہیں ایک پنجرے میں تین طوطے نظر آئے۔
الطاف حسین کے مطابق ان میں سے ایک طوطا کافی تیز دکھائی دے رہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پنجرے کے پاس جاکر بیٹھ گئے اور مخصوص انداز میں سیٹی بجائی تو ان میں سے ایک طوطا لمبی ڈنڈی پر چلتا ہوا ان کے پاس آگیا۔
الطاف حسین کے مطابق انہوں نے طوطے سے پوچھا "مٹھو بیٹا کیا ہوا تھا"؟ جس پر طوطے نے "ڈاکو ڈاکو" چلانا شروع کردیا۔ مزید پوچھنے پر طوطے نے بتایا کہ "تین ڈاکو، تین ڈاکو" تھے۔
الطاف حسین کے مطابق اس کے بعد انہوں نے اپنی تفتیشی ٹیم کو ڈیکلئیر کردیا کہ یہ خودکشی نہیں بلکہ قتل کا واقعہ ہے۔ مقتولین کے اہلخانہ خودکشی کا کہہ کر مقدمہ درج نہیں کرانا چاہ رہے تھے جس پر انہوں نے پولیس کی مدعیت میں قتل کا مقدمہ درج کرکے تفتیش کی اور مقتول کے بینک کے چوکیدار، اس کی بیوی اور بھائی کو حراست میں لے کر تفتیش کی۔
تینوں نے اقرار جرم کرلیا اور بتایا کہ مقتول نے دوران ملازمت اس کے خلاف کارروائی کی تھی جس کی رنجش پر انہوں نے گھر آکر میاں بیوی کو زہر دے کر قتل کیا اور پھر گولیاں مارکر خودکشی کا رنگ دیا۔
الطاف حسین کے مطابق بعد میں تفتیش کے دوران وہ تینوں قاتل ثابت ہوئے اور انہیں عدالت سے سزا ملی۔