اپریل تک فوج غیر سیاسی نہیں تھی، مونس کے بیان سے ثابت

مونس الٰہی نے سابق آرمی چیف کے حوالے سے جو کہا ہے وہ ان کے درمیان ہونے والی بات چیت کی ’’سیاق و سباق سے ہٹ کر‘‘ تشریح ہے: ذرائع۔ فوٹو فائل
مونس الٰہی نے سابق آرمی چیف کے حوالے سے جو کہا ہے وہ ان کے درمیان ہونے والی بات چیت کی ’’سیاق و سباق سے ہٹ کر‘‘ تشریح ہے: ذرائع۔ فوٹو فائل

ق لیگ کے رہنما مونس الٰہی کا یہ تازہ ترین انکشاف سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے اس دعوے کی نفی کرتا ہے کہ فوج کا ادارہ فروری 2021 سے غیر سیاسی ہو چکا تھا۔

نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے مونس الہٰی کا کہنا تھا کہ مارچ اور اپریل کے درمیان سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے موقع پر انہیں (پرویز الہٰی کی زیر قیادت ق لیگ والوں کو) جنرل باجوہ نے مشورہ دیا تھا کہ پی ٹی آئی کی حمایت کریں۔

اگرچہ مونس الہٰی نے یہ بیان جنرل باجوہ کو پی ٹی آئی والوں کی تنقید سے بچانے کے لیے دیا ہے لیکن وزیراعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے نے جو کچھ کہا اس سے تصدیق ہوتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ رواں سال اپریل تک غیر سیاسی نہیں تھی۔

مونس الہٰی کا اصرار تھا کہ جس وقت پی ٹی آئی والے جنرل باجوہ پر سخت تنقید کر رہے تھے اس وقت یہ جنرل باجوہ ہی تھے جنہوں نے اُس دریا کا رخ موڑنے کی کوشش کی جو پی ٹی آئی والوں کو بہا لے جا رہا تھا۔

تاہم جنرل (ر) باجوہ کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ مونس الٰہی نے سابق آرمی چیف کے حوالے سے جو کہا ہے وہ ان کے درمیان ہونے والی بات چیت کی ’’سیاق و سباق سے ہٹ کر‘‘ تشریح ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ سابق آرمی چیف کا اصرار ہے کہ ادارے نے فروری 2012 میں غیر سیاسی ہونے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کے بعد وہ کبھی کسی سیاست میں شامل نہیں ہوا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جس وقت مونس یہ بتا رہے تھے کہ انہوں نے کس طرح عمران خان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا، اس وقت کچھ مخفی قوتیں بھی تھیں جنہوں نے اپوزیشن (پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم) کی حوصلہ افزائی کی کہ عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لائیں۔

دی نیوز نے 15 فروری 2022ء کو خبر شائع کی تھی کہ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں کو توقع ہے کہ پی ٹی آئی کے 30؍ ارکان پارلیمنٹ بغاوت کریں گے، اس خبر میں عمران خان کو نکال باہر کرنے کیلئے اس وقت کی اپوزیشن کے خفیہ پلان کا ذکر کیا گیا تھا۔

خبر میں بتایا گیا تھا کہ اپوزیشن نے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی چکر ہے، کیونکہ اہم رہنماؤں نے بڑی امیدیں وابستہ کر لی ہیں کہ معاملات پلان کے مطابق آگے بڑھیں گے اور یہ معاملہ خفیہ رکھا جا رہا ہے، صرف چند ہی لوگ اس کے بارے میں جانتے ہیں۔

خبر میں کہا گیا تھا کہ ایک باخبر ذریعے کے مطابق 20 سے 30 پی ٹی آئی ارکان اپوزیشن کا ساتھ دیں گے جبکہ ق لیگ اور  ایم کیو ایم جیسی حکومتی اتحادی جماعتوں کے ساتھ بھی رابطہ بھی پلان کا حصہ ہے۔

ذریعے کا کہنا تھا کہ اپوزیشن میں پر امید لوگ چند ہفتوں میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ ذریعے کا کہنا تھا کہ جو امیدیں اپوزیشن والوں نے وابستہ کر رکھی ہیں وہ قابل بھروسہ ہیں بھی یا نہیں۔

ذریعے کے مطابق، اپوزیشن کے کچھ ارکان اس قدر پر امید ہیں کہ انہیں پلان اپنی امیدوں کے مطابق آگے بڑھتا نظر آ رہا ہے حتیٰ کہ ان میں سے ایک نے عمران خان کی جگہ پر نئے وزیراعظم کے لیے ایک نام تک پیش کر دیا ہے۔

پُرامید رہنماؤں کو ق لیگ اور ایم کیو ایم والوں کے ساتھ اپنی حالیہ بات چیت سے مایوسی نہیں ہے۔ انہیں امید ہے کہ پی ٹی آئی کے اتحادی درست وقت پر ان کا ساتھ دیں گے۔ 

اگرچہ یہ مشکل نظر آ رہا ہے لیکن پر امید رہنماؤں کو یقین تھا کہ پی ٹی آئی کے کچھ ارکان وزیراعظم کیخلاف مہینے کے آخر میں عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے پر ان کا ساتھ دیں گے۔

نوٹ: یہ خبر 3 دسمبر 2022 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی ہے

مزید خبریں :