15 دسمبر ، 2022
عمران خان نے نئی فوجی قیادت کو خدا کے واسطے دینا شروع کر دیے ہیں۔ مطالبہ وہی پرانا ہے۔ ملک کی معیشت موجودہ حکومت سے سنبھل نہیں رہی، حالات خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں ، ملک ڈیفالٹ کی طرف جا رہا ہے اور حل صرف اور صرف فوری الیکشن ہیں۔
خان صاحب نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے چاہتے ہیں کہ وہ فوری الیکشن کے انعقاد کے لئے اپنا کردار ادا کریں اور اس کےلئے موجودہ حکومت کو رخصت کیا جانا لازم ہے۔ یہی توقعات سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد جوڑی رکھیں۔
خان صاحب نئی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے سیاسی مداخلت کی درخواست کر رہے ہیں تاکہ فوری الیکشن ہوں جو اُنہیں یقین ہے کہ تحریک انصاف ہی جیتے گی اور اس طرح وہ اپنی نئی حکومت بنا لیں گے اور اس بار اُن کو یقین ہے کہ اُن کو دوتہائی اکثریت حاصل ہوگی۔
اپنی ایک حالیہ پریس کانفرنس میں خان صاحب نے یہ بھی کہا کہ سنا ہے، نئے آرمی چیف اچھے آدمی ہیں، حافظ قرآن بھی ہیں۔ خان صاحب نے اگرچہ اس مایوسی کا اظہار بھی کیا کہ ابھی تک پرانی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی (جسے وہ تحریک انصاف کےخلاف ظالمانہ قرار دے چکے ہیں) میں کوئی تبدیلی نہیں آئی لیکن اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ نئے آرمی چیف کو ابھی وقت ملنا چاہئے۔
خان صاحب نے جنرل عاصم منیر کے حوالہ سے اس انداز میں بات کی جیسے اُنہیں جانتے ہی نہ ہوں۔ اس پر میں بعد میں بات کروں گا لیکن پہلے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نئی اسٹیبلشمنٹ عمران خان پر اعتبار کرے گی؟
یہ وہ سوال ہے جو عمران خان اور تحریک انصاف کو سوچنا چاہئے اور اس کے لئے اپنے ماضی قریب میں ضرور جھانک لیں جب اُنہوں نے جنرل باجوہ جنہوں نے تحریک انصاف اور عمران خان کو حکومت میں لانے اور اُنہیں کامیاب بنانے کےلئے وہ وہ کیا جس کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی، اُن کے ساتھ وہ کچھ کیا ایسے ایسے الزامات لگائے جس کی ماضی میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔
جس اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو حکومت میں لانے کے لئے ایک عرصے سے تحریک انصاف کے حق میں اور ن لیگ اور پی پی پی کے خلاف بیانیہ بنایا، عمران خان کو پاکستان کےلئے ایک واحد امید کے طور پر پیش کیا، اُن کے مخالفین کے خلاف جھوٹے سچے کیس بنوائے اور سزائیں دلوائیں، 2018 کے انتخابات میں بدترین پولیٹیکل انجینئرنگ کی اور تحریک انصاف کی حکومت بنوائی، خان کی حکومت کے دوران خان کو کامیاب وزیراعظم بنانے کے لئے ہر قسم کی مدد کی لیکن خان کی حکومت تبدیل ہوئی تو اُسی اسٹیبلشمنٹ اور اُنہی جنرل باجوہ کو غداری کے طعنے دیے، بار بار کہا کہ نیوٹرل جانور ہوتا ہے اور یہ دباؤ جنرل باجوہ پر رکھا کہ وہ ایک بار پھر ماضی کو دہراتے ہوئے عمران خان کے لئےموجودہ حکومت کو چلتا کریں اور فوری الیکشن کروائیں۔
جنرل باجوہ نے کہا اب ایسا نہیں ہو سکتا، فوج نے بحیثیت ادارہ فیصلہ کر لیا کہ اب سیاسی معاملات سے باہر رہے گی لیکن اس سب کے باوجود تحریک انصاف اور اُس کے سوشل میڈیا نے جنرل باجوہ اور فوج کے چند اور اہم افسروں کو بدنام کیا، اُنہیں گالیاں تک دیں۔
جو کچھ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان پروجیکٹ کے لئے کیا وہ آئین کے بھی خلاف تھا اور جمہوریت کے بھی۔ لیکن جنرل باجوہ نےجو کیا وہ عمران خان پر بڑا احسان تھا۔ عمران خان نے جو بدلے میں جنرل باجوہ کو دیا، کیا موجودہ اسٹیبلشمنٹ اسے بھول سکتی ہے؟ جنرل باجوہ کی مثال کو دیکھتے ہوئے کیا عمران خان پر نئی اسٹیبلشمنٹ اعتبار کرتے ہوئے وہ کچھ کرے گی جو فوج کے آئینی کردار کے برخلاف ہے؟
میرا نہیں خیال۔ اگرچہ عمران خان نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں یہ تاثر دیا جیسے وہ موجودہ آرمی چیف کو نہیں جانتے لیکن وہ یقین رکھیں کہ موجودہ آرمی چیف اور موجودہ اسٹیبلشمنٹ خان صاحب کو اچھی طرح جانتے ہیں۔
ویسے خان صاحب کی یاددہانی کے لئے جنرل عاصم منیر وہی ہیں جنہیں اُنہوں نے اپنی حکومت کے دوران بحیثیت ڈی جی آئی ایس آئی اس لئے فارغ کر دیا تھا کہ جنرل عاصم نے خان صاحب کے کچھ قریبی افراد کی مبینہ کرپشن کی اطلاعات اُنہیں مہیا کی تھیں جس پر خان صاحب ناراض ہوگئے تھے۔
یہ وہی جنرل عاصم منیر ہیں جنہیں اُن کی تعیناتی سے چند ہفتہ قبل تک عمران خان آرمی چیف بنانے کی مخالفت کرتے رہے۔ امید ہے خان صاحب کو اب سب یاد آ گیا ہوگا۔
لیکن چاہے خان صاحب نے ماضی میں جو کیا وہ اچھا تھا یا بُرا، میری نئے آرمی چیف اور نئی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے یہ توقع ہو گی کہ وہ سیاسی طور پر نیوٹرل ہی رہے گی نہ عمران خان کے حق میں، نہ اُن کے خلاف اور کسی دوسرے کے حق میں۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)