20 دسمبر ، 2022
پاکستان نے دنیا کرکٹ کو کئی نامور بیٹرز دیے،کسی کو اس کے ٹیلنٹ کے حساب سے پذیرائی ملی کوئی اچھے اعداد و شمار کے باوجود بھی وہ مقام حاصل نہ کرسکا جو شاید اس کا حق تھا، ایسا ہی ایک پلیئر ہے اظہر علی جس نے پیر کو کراچی میں اپنے کیریئر کی آخری اننگز کھیلی۔
37 سالہ اظہر علی نے 2010 میں اپنے انٹرنیشنل کیریئر کا آغاز کیا، 97 ٹیسٹ میچز کھیلے اور 7 ہزار ایک سو بیالیس رنز بنائے ۔
کراچی ٹیسٹ میں کیریئر کی آخری اننگز کے بعد جیو نیوز کو خصوصی انٹرویو میں اظہر علی نے اپنے کیریئر کے نشیب و فراز، چیلنجز، یادگار لمحات، تلخ یادوں اور دیگر معاملات پر کھل کر گفتگو کی۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں دکھ ہے کہ ابوظبی میں نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ میں وہ فنش نہ کرسکےا ور پاکستان قریب آکر وہ میچ ہار گیا ۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ 12 سالہ کیریئر میں کوئی تشنگی رہی ہے تو انہوں نے کہا کہ خواہش تھی کہ سو ٹیسٹ میچز کھیلوں مگر وہ اس سیریز میں پوری نہیں ہوپارہی تھی، لیکن یہ کوئی بڑی بات نہیں ہاں البتہ ایک دکھ یہ ہے کہ نیوزی لینڈ کے خلاف جو ابوظبی میں ٹیسٹ تھا وہ فنش نہ کرسکا تھا، سوچتا ہوں کاش نکل کر چھکا مار دیتا لیکن اس وقت ایسا نہیں سوچا، کاش وہ فنش کرلیتا تو اچھا ہوتا مگر پاکستان قریب آکر وہ میچ ہار گیا۔
اظہر علی نے کہا کہ کرکٹ میں اپس اور ڈاؤنز چلتے ہیں، چیلنجز آتے ہیں، کیریئر میں اچھی کارکردگی بھی ہیں اور مایوس کن لمحات بھی ہیں، یہ کیریئر کا حصہ ہے،ہمیشہ ویسا نہیں ہوتا جیسا آپ چاہتے ہیں، زندگی ایسے ہی چلتی ہے۔اظہر علی نے بتایا کہ ایک لیگ اسپنر کے طور پر شروعات کی، پھر آہستہ آہستہ بیٹنگ کی طرف آئے، انہوں نے مزید کہا کہ ’آج اگر ان لمحات میں دوبارہ جاؤں تو میں اس کیریئر سے ہمیشہ مطمئن رہوں گا، اچھی یادوں میں چیمپئنز ٹرافی جیتنا ، ٹیسٹ نمبر ون ٹیم بننا ہے۔‘
سابق کپتان نے کہا کہ 2006 کے سیزن میں بطور بیٹر کھیلا، کے آر ایل میں محمد وسیم نے بطور بیٹر کھلایا، علی نقوی بھی اس سے کافی متاثر ہوئے، وہاں سے جو موقع ملا تو اعتماد ملا کہ میں بطور بیٹر کھیل سکتا ہوں، پھر آہستہ آہستہ لوگوں نے تسلیم کیا مگر دو تین سال لگے جس کے بعد لوگوں کو یقین آیا کہ میں بیٹنگ کرسکتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ’ پورے کیریئر میں اسٹرگل رہی ہے کہ ہمیشہ خود کو منوانا پڑتا رہا، لیکن اس نے مجھے اور بھی محنت کرنا سکھایا، اب 97 ٹیسٹ کھیلنا میری نظر میں بڑا کارنامہ ہے۔‘
اظہر علی نے ایک ایسے وقت میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا جب پاکستان کرکٹ تنازعات میں الجھی ہوئی تھی، وہ کہتے ہیں کہ کیریئر کے شروعات کے تین سال بہت چیلنجنگ تھے، پاکستان ٹیم کو وہ آزای نہیں میسر تھی جو دیگر ٹیموں کو تھی لیکن ٹیم کا ایک ہدف تھا اور وہ تھا فینز کا اعتماد ایک با پھر جیتنا ، دو تین سال ٹیم نے متحد ہوکر بہت کامیابیاں حاصل کیں۔
ایک سوال کے جواب میں کیریئر کے ابتدائی 72 ٹیسٹ ملک سے باہر کھیلنے والے اظہر علی نے کہا کہ ’میں یا میرے ساتھ کے پلیئرز ہم نے شاید سوچا نہ تھا کہ اب پاکستان میں ٹیسٹ میچ کھیل پائیں گے مگر سکیورٹی ایجنسیوں نے بڑا کام کیا اور پھر ان ٹیموں کے شکرگزار جو شروع میں آئے، اب رونقیں بحال ہوئیں، خوش قسمتی کہ ہمیں پاکستان میں کھیلنے کا موقع ملا ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی نظر میں ان کی سب سے بہترین اننگز کون سی ہے تو اظہر علی نے جواب دیا کہ ’میرے خیال میں 300 کرنا، آسٹریلیا میں 200 کرنا بڑی کارکردگی ضرور ہے لیکن ایک پلیئر کو پتہ ہوتا کہ وہ اندر سے کس وقت کس صورتحال کا شکار ہے اس لیے میری نظر میں جو انگلینڈ میں ساؤتھمپٹن میں جو سنچری کی تھی وہ میرے لیے بہت اہم ہے کیوں کہ اس ٹائم پر میں کافی اسٹرگل کررہا تھا اس لیے میرے لیے وہ اننگ کافی اہم رہی۔‘
ایک سوال پر اظہر علی کا کہنا تھا کہ یونس خان ، مصباح الحق نے ان کے کیریئر میں کافی کردار ادا کیا، انہوں نے دوست ہی ایسے بنائے جو انہیں گائیڈ کریں، کوشش ہوتی تھی کہ اپنے آس پاس ایسے لوگ رکھیں جو ہر وقت تعریف کے بجائے غلطیوں کی نشاندہی کریں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں وہ پذیرائی نہ ملی جو ان کے اعداد و شمار کے مطابق ان کا حق تھا تو انہوں نے کہا کہ وہ خود سے کیا کہہ سکتے ہیں لیکن یہ ایک چیلنج سا ضرور تھا، انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہم جیسے باہر کے پلیئرز اگر ایسے ہی آؤٹ آف فارم ہوتے تو ان کو وہ تنقید نہیں سہنا پڑتی جس کا سامنا ہمیں کرنا پڑتا تھا۔‘
سابق کپتان نے تسلیم کیا کہ جب وہ ون ڈے کرکٹ سے آؤٹ ہوئے تو اس وقت انہیں لگتا تھا کہ ان کی وائٹ بال کرکٹ ابھی باقی ہے لیکن چونکہ ٹیم میں جگہ نہیں بن رہی تھی تو اس لیے کنارہ کشی اختیار کرلی اور اس بات کا کوئی شکوہ نہیں۔
اظہر علی نے کراچی ٹیسٹ کے آغاز سے قبل اعلان کردیا تھا کہ یہ ان کا آخری ٹیسٹ ہوگا ، پہلی اننگز میں 45 رنز کی اننگز کھیلنے کے بعد دوسری اننگز میں ، جو ان کی آخری اننگز بھی تھی، صفر پر آؤٹ ہوگئے، اظہر علی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ آخری اننگز کو یادگار بنانا چاہتے تھے، دکھ ہے کہ ایسا ہو نہ سکا لیکن یہ کرکٹ کا حصہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’جب آؤٹ ہوکر واپس آرہا تھا تو کافی جذباتی تھا، 12 سال میدان میں رہا اس میدان سے باہر نکلتے وقت جذباتی تھا، شکریہ ادا کرتا ہوں ساتھی کرکٹرز کا اور پی سی بی کا کہ جس انداز میں انہوں نے سینڈ آف دیا‘۔
اظہر علی نے کہا کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کرکٹ سے جڑے رہیں گے کیوں کہ کرکٹ ہی آتی ہے، فی الحال وہ کاؤنٹی کھیلنے جا رہے ہیں جس کے بعد سوچیں گے کہ کمنٹری یا کوچنگ کس جانب اپنا کیریئر اپنانا ہے۔