Time 21 دسمبر ، 2022
پاکستان

نورمقدم قتل کیس: مرکزی ملزم ظاہر جعفر اور دیگر کی سزا کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ محفوظ

چیف جسٹس عامرفاروق اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان پر مشتمل ڈویژن بینچ نے اپیلوں کو یکجا کر کے سماعت کی__فوٹو: فائل
چیف جسٹس عامرفاروق اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان پر مشتمل ڈویژن بینچ نے اپیلوں کو یکجا کر کے سماعت کی__فوٹو: فائل

اسلام آباد ہائیکورٹ نے نورمقدم قتل کیس میں مرکزی مجرم ظاہر جعفر اور دیگر کی سزا کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

 مقتولہ نور مقدم کے والد مدعی شوکت مقدم کی جانب سے مرکزی مجرم کے والد اور تھراپی ورکس ملازمین کی بریت جبکہ چوکیدار اور مالی کی سزا بڑھانے کی اپیلوں پر بھی فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔

چیف جسٹس عامرفاروق اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان پر مشتمل ڈویژن بینچ نے اپیلوں کو یکجا کر کے سماعت کی۔

عدالت نے کہا یہ بات تو طے ہے کہ وقوعہ پرسب سے پہلے تھراپی ورکس والے پہنچے۔ پراسیکیوشن کے گواہ رکھنے کے بجائے آپ نے اتنے زیادہ ملزم کیوں رکھ دیے؟

مدعی کے وکیل بابرحیات نے کہا اگر تھراپی ورکس والوں کا تعاون کا ارادہ ہوتا تو وہ پولیس سے تعاون کرتے۔ تھراپی ورکس کو اس لیے رکھا کیونکہ انہوں نے پولیس کو اطلاع نہیں دی۔تھراپی ورکس کو کنڈکٹ کی وجہ سے کیس میں ملزم بنایا گیا تھا۔

عدالت نے پوچھا کیا تھراپی ورکس اور والدین اغوا اور قتل میں ملوث تھے؟ اگرآپ تھراپی ورکس کوگواہ بناتے تو شاید وہ پراسیکیوشن کے ساتھ زیادہ تعاون کرتے۔ ظاہرجعفرکے وکیل عثمان کھوسہ نے سی سی ٹی وی فوٹیج کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی اور ڈی وی آر فوٹیج قبضے میں لے کرپیش کرنے کے طریقے پراعتراض کیا۔

 انہوں نے کہا جس پولیس کانسٹیبل نے ڈی وی آرقبضے میں لی اس کا بیلٹ نمبرنہیں لکھا گیا نا ہی اس نے ریکوری میموپردستخط کیے۔

 ظاہر جعفر کے وکیل عثمان کھوسہ نے کہا کیا صرف سی سی ٹی وی کی بنیاد پرسزا دے سکتے ہیں؟ آج کے زمانے میں یہ غیرمحفوظ ہے۔

جس پر  چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا ڈی وی آرمیں جو 2 لوگ نظر آرہے ہیں وہ مقتولہ اورمجرم ہیں۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ باہرسے کوئی بندا آیا تھا۔

ظاہر جعفر کے وکیل بولے خون کا سیمپل لیتے ہوئے فنگرپرنٹس مٹنے کی بات پریقین نہیں رکھتا، چاقو کے دستے پر کچھ نہ کچھ نشانات موجود ہوتے ہیں۔

عثمان کھوسہ نے کہا ایسی سزا صرف عادی مجرموں کو دی جاتی ہے تاکہ deterrence ہو۔ عالمی سطح پر بھی پاکستان پر دباؤ ہے کہ سزائے موت کو ختم کیا جائے۔

 چیف جسٹس نے کہا یہ تو قانون سازی کا معاملہ ہے اور قانون سازوں نے دیکھنا ہے۔

وکیل نے کہا ظاہر جعفر امریکی شہری اور نیو جرسی کا رہنے والا ہے جہاں قانون میں سزائے موت کا تصور نہیں، عدالت سے استدعا ہے کہ اس نکتے کو بھی مدنظر رکھے جس پر چیف جسٹس نے کہا ہمارے ملک آزاد اور ہمارا اپنا قانون ہے، ہم نے اس پر عمل کرنا ہے۔

عدالت نے کہا کہ فریقین کے وکلا 7 دن میں اضافی تحریری دلائل جمع کرا سکتے ہیں جس کے بعد اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔

مزید خبریں :